سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(269) نشہ باز والد کو مارنا

  • 10627
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1823

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا والد منشیات کو استعمال کرتا ہے۔ایک بار  اس نے حالت  نشہ میں میری والدہ کو مارنا شروع کردیا  تو میں  نے والدہ  کو  چھڑانے  کے لیے اپنے باپ کو مارنا شروع کردیا اور پھر ان دونوں  کو گھر سے نکال دیا۔سوال یہ ہے کہ  میں نے اس حالت میں اپنے  والد کو جو مارا'تو اس کے بارے میں  حکم شریعت کیا ہے؟ کیا اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھ سے  باز پرس کرے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سوال کے جواب کے ایک حصے کا تعلق  باپ سے اور دوسرے  کا تعلق  بیٹے سے ہے۔باپ سے میں یہ کہوں گا کہ شراب  نوشی  سے اجتناب کرو'کیونکہ یہ کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ  نے شراب پینے  والے پر لعنت فرمائی ہے۔اور  آپ نے  فرمایا ہے کہ اسے پینا حرام ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایاہے :

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا الخَمرُ‌ وَالمَيسِرُ‌ وَالأَنصابُ وَالأَزلـٰمُ رِ‌جسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطـٰنِ فَاجتَنِبوهُ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٩٠ إِنَّما يُر‌يدُ الشَّيطـٰنُ أَن يوقِعَ بَينَكُمُ العَد‌ٰوَةَ وَالبَغضاءَ فِى الخَمرِ‌ وَالمَيسِرِ‌ وَيَصُدَّكُم عَن ذِكرِ‌ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلو‌ٰةِ ۖ فَهَل أَنتُم مُنتَهونَ ﴿٩١ وَأَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّ‌سولَ وَاحذَر‌وا ۚ فَإِن تَوَلَّيتُم فَاعلَموا أَنَّما عَلىٰ رَ‌سولِنَا البَلـٰغُ المُبينُ ﴿٩٢﴾... سورةالمائدة

’’اے ایمان والوں! شراب اور جوا اور بت  اور فال نکالنے  کے تیر  (یہ سب ) گندے شیطانی کام ہیں'سو ان سے بچتے رہنا تاکہ تم فلاح  پاؤ۔ یقیناً شیطان چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے  سے تمہارے  درمیان دشمنی  اور رنجش  ڈال دے  اور تمہیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روک دے' تو کیا تم (ان کاموں سے) باز رہوگے؟ اور اللہ  کی فرمانبرداری  اور رسول کی اطاعت  کرتے رہو'اگر منہ پھیروگے تو جان لو کہ ہمارے پیغمبر  کے ذمے صرف (پیغام کا ) کھول کر  پہنچا دینا ہے۔‘‘

لہذا اس باپ  کو میں یہ نصیحت  کرتا ہوں کہ وہ اللہ کے آگے  توبہ کرے اور شراب  نوشی  سے باز آجائے قبل اس کے کہ اس کی موت آجائے اور پھر  اسے ندامت  ہو اور اس وقت  کی ندامت  کسی کام نہ آئے گی۔

بیٹے سے میری نصیحت یہ ہے کہ ماں کو چھڑانے  کے لیے اس نے باپ کو جو مارا تواس کی وجہ سے اسے  کوئی گناہ نہیں ہوگا البتہ  اگر باپ کو مارنے  کے بغیر  ماں کو چھڑانا ممکن تھا تو پھر  اسے نہیں مارنا چاہیے تھا' کیونکہ باپ کو ماں کے مارنے  سے منع کرنا حملہ آور  کو دفع کرنے کے باب سے ہے'لہذا اسے نسبتاً آسان طریقے  سے منع کیا جائے' سو اگر مارنے کے بغیر  اسے منع  کرنا ممکن ہو تو پھر مارنے  کی ضرورت نہیں ہے اور  اگر ایسا ممکن نہ ہوتو پھر مارنے کے بغیر  چارہ کار نہیں ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص212

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ