السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں دو سوال پوچھنا چاہتا ہوں ۔ایک تو یہ کہ دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کے بارے میں کیا حکم ہے اور دوسرا یہ کہ عورت کے مرد سے مصافحہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟
میں دو سوال پوچھنا چاہتا ہوں ۔ایک تو یہ کہ دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کے بارے میں کیا حکم ہے اور دوسرا یہ کہ عورت کے مرد سے مصافحہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟
منہ پر ہاتھ پھیرنے کے بارے میں صحیح احادیث موجود نہیں ہیں،۔اس سلسلہ میں جو احادیث موجود ہیں' وہ ضعف سے خالی نہیں ہیں لہذا زیادہ راجح اور زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو منہ پر نہ پھیرا جائے۔ بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس سلسلے میں اگرچہ احادیث ضعیف ہیں تاہم ان کے بعض طرق سے دوسرے طرق کو تقویت حاصل ہو جاتی ہے'جس کی وجہ سے وہ قوی ہوکر حسن لغیرہ کے قبیل میں سے ہوجاتی ہیں، جیساکہ حافظ ابن حجر ؒ نے اپنی کتاب "بلوغ المرام" کے آخری باب میں ذکر فرمایا ہے ۔ بہر حال مقصود یہ ہے کہ منہ پر ہاتھ پھیرنے کے بارے میں صحیح احادیث نہیں ہیں،نبی ﷺ نے ایسا نہ نمازاستسقاء میں کای اور نہ ان دیگر موقعوں پر جہاں آپ نے دعا میں ہاتھ اٹھائے تھے مثلاً صفا اور مروہ کے پاس' عرفات میں' مزدلفہ میں اور جمرات کے پاس صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے یہ ذکر نہیں کیا کہ آپ نے ان موقعوں پر اپنے ہاتھوں کو منہ پر پھیرا ہو' تو اس سے معلوم ہوا کہ افضل یہ ہے کہ اسے ترک کردیا جائے۔وباللہ التوفیق
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کے جائز نہیں ہے کہ کسی اجنبی عورت سے مصافحہ کرے کواہ وہ مصافحہ کے لیے خود اپنا ہاتھ آگے کیوں نہ بڑھادے۔ ایسی صورت میں اسے یہ بتادے کہ اجنبی مردوں سے مصافحہ جائز نہیں ہے بلکہ مصافحہ صرف محرم مردوں 'مثلاً بھائی اور چچا وغیرہ سے جائز ہے۔اجنبی مرد اور عورت کا آپس میں مصافحہ جائز نہیں ہے' کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا:
" میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔"
اسی طرح صحیح حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
" رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ نے کبھی بھی کسی (غیر محرم) عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا تھا۔آپ ان سے زبانی گفتگو کے ساتھ بیعت لے لیا کرتے تھے۔"
اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ (ﷺ کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔"
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابماخذ:مستند کتب فتاویٰ