السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرات قرآن مجید کے فوراً بعد اجتماعی صورت میں دعا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے مثلاً ایک شخص دعا کرے اور باقی لوگ آمین کہیں اور اسی طرح کسی بھی انقطاع کے بغیر ہر درس اور ہر وعظ کے فوراً بعد دعا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے۔اس طرح دعا کرنے والوں کا آیت کریمہ ﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ...﴾ سے استدلال ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اصل یہ ہے کہ اذکار اور عبادات توفیقی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادات صرف اسی طرح کی جائے'جس طرح حکم شریعت ہے۔اسی طرح ان کے اطلاق'وقت کی پابندی'کیفیت اور تعداد کے سلسلہ میں بھی حکم الہی کی پابندی از بس ضروری ہے۔یعنی اذکار'دعاؤں اور دیگر تمام عبادات کے سلسلے میں یہ دیکھا جائے گا کہ انھیں شریعت نے مطلقاً ادا کرنے کی اجازت دی ہے یا انہیں وقت 'عدد'جگہ یا کیفیت کی کسی پابندی کے ساتھ مقید کیا ہے۔اگر مقید کیا ہے تو ہمیں اس کی پابندی کرنا پڑے گی اور اگر مقید نہیں کیا تو ہمارے لیے ازخود کسی خاص کیفیت یا وقت یا تعداد کی پابندی عائد کرلینا جائز نہیں ہے بلکہ اس سلسلہ میں ہمیں بھی اس طرح مطلقاً ادا کرنے کی اجازت دی ہے یا انہیں وقت عدد 'جگہ یا کیفیت کی کسی پابندی کے ساتھ مقید کیا ہے۔اگر مقید کیا ہے تو ہمیں اس کی پابندی کرنا پڑے گی اور اگر مقید نہیں کیا تو ہمارے لیے از خود کسی خاص کیفیت یا وقت یا تعداد کی پابندی عائد کرلینا جائز نہیں ہے بلکہ اس سلسلہ میں ہمیں بھی اس عبادت کو اس طرح مطلقاً کرنا ہوگا'جس طرح اس کے بارے میں حکم شریعت وارد ہے اور جس عبادت کے لیے وقت 'تعداد 'جگہ یا کیفیت کی پابندی قولی یا عملی دلائل سے ثابت ہو تو ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت اسی طرح کریں گے'جس طرح کہ وہ شرعاً ثابت ہے۔
(اس اصول کے بعد یاد رکھیے کہ) نبیﷺ سے قولاً یا فعلاً یا تقریراً فرض نمازوں کے بعد'قرات قرآن کے فوراً بعد یا ہر درس کے بعد اجتماعی طور پر دعا کریں۔یہ طریقہ خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت نہیں ہے'لہذا جو شخص فرض نمازوں کے بعد یا ہر قراءت قرآن کے بعد یا ہر درس کے بعد اجتماعی دعا کی پابندی کرتا ہے تو وہ بدعت کا ارتکاب کرتا اور دین میں ایک ایسی نئی چیز پیدا کرتا ہے جو دین میں سے نہیں ہے اور نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
(من عمل عملاً ليس عليه امرنا فهو رد)) (صحيح مسلم ‘الاقضية‘باب نقض الاحكام الباطلة‘ ح: ١٨/١٧١٨)
" جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا امر نہیں ہے تو وہ مردود ہے‘‘
اور فرمایا:
(( من احدث في امرنا ماليس منه فهو رد)) (صحيح البخاري‘الصلح‘باب اذا اصطلحوا علي صلح جور فالصلح مردود‘ ح :٢٦٩٧ وصحيح مسلم ‘الاقضيه ‘باب نقض الاحكام الباطلة‘ ح:١٨/١٧١٨والفظ له)
’’جس نے ہمارے اس امر( شریعت) میں کوئی نئی بات پیدا کی جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘
جن لگوں کو آپ نے نصیحت کی ہے اور انہوں نے ارشاد باری تعالیٰ ﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ...﴾
سے استدلال کرتے ہوئے (نصیحت ماننے سے) انکار کردیا ہے تو ان کے لیے اس آیت میں کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے کیونکہ یہ استدلال ایک ایسی منطلق نص سے ہے'جس میں اس کیفیت کی تعین نہیں ہے' جس کی انہوں نے اپنی دعاؤں میں پابندی شروع کر رکھی ہے اور مطلق کے سلسلہ میں یہ ضروری ہے کہ عمل اس کے اطلاق کے مطابق ہو'اس میں کسی مخصوص حالت کا التزام نہ کیا جائے۔اگر اس میں کسی مخصوص کیفیت کی پابندی لازم ہوتی تو نبیﷺ ضرور اس کی پابندی فرماتے اور پھر آپ کے بعد آپٌ کے خلفاء بھی اس پابندی کا التزام فرماتے اور قبل ازیں ذکر کیا جاچکا ہے کہ یہ بات آپ سے اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے قطعاً ثابت نہیں ہے اور (یہ بات طے شدہ ہے کہ) ساری خیروبرکت رسول اللہﷺ کی سیرت کی اتباع اور پیروی میں ہے 'جب کہ ساری کی ساری خرابی ان کی سیرت کی مخالفت اور انکی بدرعات کی پیروی میں ہے'جن سے رسول اللہﷺ نے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے:
((اياكم ومحدوثات الامور‘فان كل محدثة بدعة‘وكل بدعة ضلالة)) (سنن ابي داؤد ‘السنة‘باب في لزوم السنه‘ح:٤٦٧- وجامع الترمذي ‘ح :٢٦٨٦)
’’ نئی نئی باتوں سے بچو کیونکہ (دین میں ایجاد کی جانے والی) ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ( گمراہی) ہے۔‘‘
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب