سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

زندگی میں تقسیم وراثت کا بیان

  • 10607
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1368

سوال

زندگی میں تقسیم وراثت کا بیان
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

والدین اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کواپنی 4 بیٹیوں اور 3 بیٹوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو کیابیٹیوں کے جہیز کوتقسیم جائیداد میں بھی ملایا جائے گا۔؟والدین ایسا نہیں چاہتےکہ جہیز کو تقسیم جائیداد میں ملایا جائے۔اگر صرف ایک بیٹے کو 24 سال پہلے (سن 1990) والدین اپنی جائیداد میں سے ایک مکان رہائش کےلئے دیتے ہیں تو حصہ دیتے وقت (سن 2014) اس مکان کا 24 سال کا کرایہ بھی (حصے میں) شامل کیا جائے گا؟ یہ سود تو نہیں ہوگا۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلی بات تو یہ ہے کہ زندگی میں وراثت تقسیم کرنا شرعا ناجائز ہے ،جیسا کہ آیت مبارکہ﴿یُوْصِیْکُمُ اﷲُ فِیْٓ اَوْلاَدِکُمْ﴾ میں ﴿مَا تَرَکَ﴾ اور ﴿مِمَّا تَرَکَ﴾ کے الفاظ سے وضاحت ہوتی ہے۔ نیز ترکہ کی حقیقت میں موت کے بعد چھوڑے ہوئے مال کی قید موجود ہے پھر میراث اور وراثت کے الفاظ بھی زندگی کے ختم ہونے کے بعد پر دلالت کر رہے ہیں تو ان دلائل کی بنا پر انسان اپنے مال کو اپنی اولاد یا دیگر وارثوں میں ﴿یُوْصِیْکُمُ اﷲُ الخ﴾ کے مطابق تقسیم نہیں کر سکتا ہے۔

ہاں صحیح بخاری میں مروی نعمان بن بشیر والی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنی جائیداد کا کچھ حصہ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو بطور عطیہ یا ہبہ دے سکتا ہے(بخاری۔کتاب الھبۃ وفضلھا والتحریض علیھا۔باب الھبۃ للولد)

لیکن یاد رہے اس عطیہ اور ہبہ میں ﴿لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الاُنْثَیَیْنِ﴾ والا اصول پیش نظر نہیں رکھا جائے گا کیونکہ یہ موت کے بعد میراث وترکہ کے بارے میں ہے بلکہ زندگی میں اولاد کو عطیہ یا ہبہ کرتے وقت لڑکے اور لڑکی کو برابر برابر دیا جائے گا۔

بیٹیوں کو دیا گیا جہیز ایک تحفہ ہے ،اسی طرح بیٹے کو دیا گیا مکان بھی ایک تحفہ شمار ہو گا،لہذا والدین پر ضروری ہے کہ وہ باقی اولاد کو بھی اتنا اتنا تحفہ دیں ،پھر باقی جو جائیداد بچے اسے بھی بچوں اور بچیوں میں برابر برابر تقسیم کر دیں۔لیکن یاد رہے کہ اپنی ضروریات زندگی کے لئے کچھ نہ کچھ اپنے پاس ضرور رکھیں ،کیونکہ ممکن ہے بعد میں آپ کو اس کی ضرورت پڑ جائے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتوی کمیٹی

محدث فتوی


تبصرے