میں نے بعض کتا بو ں میں یہ پڑھا ہے کہ اقا مت جمعہ کی شر ا ئط میں سے یہ بھی ہے کہ چا لیس ایسے آدمی ہو ں جن پر نماز وا جب ہو لیکن الدعوۃ" میں سما حۃ الشیخ کا یہ فتوی شا ئع ہو ا ہے کہ امام کے سا تھ اگر دو آدمی بھی ہو ں تو جمعہ قا ئم کیا جا ئے گا تو ان دو نو ں میں تطبیق کس طرح ہو گی ؟
اہل علم کی ایک جما عت کا یہ قو ل ہے کہ اقا مت جمعہ کے لئے چالیس آدمیوں کا ہو نا شر ط ہے حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے لیکن راجح قو ل یہ ہے کہ چا لیس آدمیوں سے کم کے سا تھ بھی جمعہ پڑ ھنا جا ئز ہے اور کم از کم تعداد تین ہے جس طرح کہ اس فتو ی میں بیا ن کیا گیا ہے جس کی طرف سوال میں اشارہ کیا گیا ہے کیو نکہ چالیس کے عدد کے با رے میں کو ئی دلیل نہیں ہے اور وہ حدیث جس میں چالیس آدمیوں کی شر ط کا ذکر ہے وہ ضعیف ہے جیسا کہ حا فظ ابن حجر نے "بلو غ المر ا م " میں ذکر فر ما یا ہے
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب