کیا جمعہ کے دن پہلی اذان بدعت ہے ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثا بت ہے کہ آپ نے فر ما یا :
"تم میری اور میر ے بعد ہدا یت یا فتہ خلفا ء را شدین رضوان اللہ عنہم اجمعین کی سنت پر عمل کر و اس سے وا بستہ ہو جا ؤ اور اسے نہا یت مضبو طی سے تھا م لو ۔ "
نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں جمعہ کی اذا ن اس وقت ہو تی تھی جب امام منبر پر بیٹھتا تھا لیکن حضرت عثما ن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں جب مدینہ کی آبا دی میں اضا فہ ہو گیا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نت جمعہ کے دن اذان اول کا حکم دیا لہذا یہ بدعت نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں جو ہم نے ابھی بیا ن کی ہے ہمیں خلفا ء راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین کی سنت کے اتبا ع کا بھی حکم دیا گیا ہے اس مسئلہ میں اصل حدیث وہ ہے جسے امام بخا ری نسا ئی تر ندی ابن ما جہ اور ابو دؤد----اور یہ الفا ظ ابو دؤد کی روا یت میں ہیں ----نے ابن شہا ب سے رو ایت کیا ہے کہ :
"مجھے سا ئب بن یزید نے خبر دی کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر و رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں اذان اول اس وقت ہو تی تھی جب امام جمعہ کے دن منبر پر بیٹھتا جب حضرت عثما ن رضی اللہ تعالیٰ عنہکا دور خلا فت آیا اور مدینہ کی آبا دی زیا دہ ہو گئی تو حضرت عثما ن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تیسری اذان کا حکم دیا جو زوراء میں کہی جا تی تھی تو اس وقت سے یہی معمو ل چلا آتا ہے ۔"
علا مہ قسطلا نی رحمۃ اللہ علیہ نے شر ح بخا ر ی میں اس حدیث کے ذیل میں لکھا ہے کہ حضرت عثما ن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس اذا ن کا اضا فہ کیا اس سے مرا د وہ ہے جو نماز جمعہ کا وقت شروع ہو نے پر کہی جا تی ہے اسے تیسر ی اذان اس لئے کہا کہ یہ اذان و اقا مت سے زائد ایک تیسر ی اذان تھی اور اس حدیث میں اقامت کو (تغلیبا ) اذان کہا گیا ہے جب مسلما نو ں کی آبادی میں اضا فہ ہو گیا (تو جمعہ کے وقت کے قر یب ہو نے کی اطلا ع کے پیش نظر ) حضرت عثما ن نے اجتہا د سے اس اذان کا اضا فہ فر ما یا اور تما م صحا بہ کر ام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے جب اس پر سکو ت فر ما یا اور انکا ر نہ کیا تو یہ گو یا اجما ع سکو تی ہو ا ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب