جب میں مسا فر ہو ں اور اس شہر میں سکو نت پذیر جس کی طرف تین یا چا ر یا اس سے کم و پیش دن رہنے کے لئے سفر کر کے گیا ہوں اور میں ظہر کے وقت مسجد میں گیا اور جماعت کے سا تھ ظہر کی چا ر رکعتیں ادا کیں پھر میں نے اکیلے کھڑے ہو کر نما ز عصر ادا کر لی تو کیا میرا یہ عمل جا ئز ہے ؟ کیا میر ے لئے یہ جا ئز ہے کہ میں اپنی رہا ئش گا ہ پر نمازوں کو جمع اور قصر کے سا تھ ادا کر تا رہو ں جب کہ میرا قیا م اندرون شہر جہا ں مسجد یں بھی بہت ہو ں میں اذان کی آواز بھی سنو ں لیکن مسا فر ہو نے کی بنیا د پر رہا ئش گاہ پر ہی نما ز وں کو ادا کر تا رہوں؟
جس مسا فر کا کسی شہر میں چا ر دن سے زیا دہ اقا مت کا ارادہ ہو تو جمہو ر اہل علم کے نز دیک اس کے لئے پو ر ی نما ز پڑ ھنا وا جب ہے اور اگر اس سے کم مدت کی اقا مت کا ارادہ ہو تو پھر قصر افضل ہے اور اگر پو ر ی نماز بھی پڑ ھ لے تو کو ئی حر ج نہیں اور اگر مسا فر اکیلاہوتواسےاکیلےہی نماز قصر نہیں پڑھنی چا ہئے بلکہ اس کے لئے واجب یہ ہے کہ با جما عت پو ری نما ز اداکر ے جیسا کہ ان احا دیث سے ثا بت ہے جو جما عت کے وجو ب پر دلالت کنا ں ہیں صحیح مسلم میں حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مر و ی ہے کہ مسا فر کے لئے سنت یہ ہے کہ جب وہ امام مقیم کے ساتھ نما ز ادا کر ے تو چا ر رکعتیں پر ھے کیو نکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے عموم کا بھی یہی تقا ضا ہےکہ :
"امام اس لئے بنا یا جا تا ہے کہ اس کی اقتداء کی جا ئے لہذا امام سے اختلاف نہ کر و ۔"
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب