سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

عذر کے بغیر ترک جماعت جائز نہیں

  • 10499
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 861

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نماز تو ہمیشہ بروقت ادا کرتا ہوں لیکن مسجد میں نہیں بلکہ اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں ہی ادا کرلیتا ہوں۔کیا یہ جائز ہے؟اور کیا گھر میں ادا کی جانے والی نماز اجروثواب کے اعتبار سے مسجد میں ادا کی جانے والی نماز کے برابر ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کے لئے جماعت اور مسجد کو ترک کرنا جائز نہیں خواہ اپنے گھر میں بچوں کے ساتھ نماز باجماعت ہی کیوں نہ اداکریں کیونکہ مسجدیں بنائی ہی اسی لئے جاتی ہیں۔کہ انہیں نماز باجماعت کے اہتمام کے ساتھ آباد کیا جائے اور موذن جو اذان میں یہ کلمہ کہتاہے کہ ((حی علی الصلاۃ)) تو اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ مسجد میں آکر نماز باجماعت اد ا کرو تاکہ فلاح پاسکو لہذا ہم جب اذان کی آواز سنیں تو ہم پر واجب ہوجاتا ہے کہ ہم مسجد میں جا کر نمازادا کریں جہاں تمام مسلمان ایک امام کی اقتداء میں نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز اداکرنے کے طریقوں کوسیکھتے ہیں نمازی باہم دگر ملاقات کرکے تحفہ سلام کا تبادلہ کرتے اور اجتماعیت محبت اور ہمدردی وخیر خواہی سے شاد کام ہوتے ہیں۔وجوب جماعت پرارشاد باری تعالیٰ((وارکعوا مع الراکعین)) اور (واذا نادیتم الی الصلوۃ) سے بھی استدلال کیا گیا ہے۔لہذا جو شخص اذا ن سنے اس پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اس پر لبیک کہے اور اسی وجہ سے یہ وعید آئی ہے کہ جو شخص باجماعت نماز ادا نہ کرے۔اس کی نماز قبول ہی نہیں ہوتی جیسا کہ حدیث میں ہے کہ:

من سمع النداء فلم يات فلا صلاة له الا من عذر (سنن ابن ماجه)

''جو شخص آذان سنے اور پھر نماز کے لئے نہ آئے تو اس کی نماز نہیں ہوتی الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔''

اگر اس سلسلہ میں کسی کے لئے رخصت ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس نابینا آدمی کو ضرور رخصت عطا فرمادیتے جس کا گھر بھی مسجد سے دور تھا جس کے گھر اور مسجد کے درمیان وادی اور کھجور کےدرخت تھے۔اور جس کے پاس مسجد لے جانے کے کوئی معاون بھی نہ تھا اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں آکر باجماعت نماز ادا نہ کرنے والوں کو یہ دھمکی بھی دی کہ اگرعورتیں اور بچے نہ ہوں تو آپ ان کے گھروں کو آگ سے جلادیں گے نماز باجماعت ادا کرنا ان مسجدوں کی آبادی ہے جو بیوت طاعت ہیں جو اسلامی ملکوں کے شعائر ہیں اور جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کے پاک نام کا زکر کیا جائے اور جن میں وہ بندگان الٰہی صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتمحید کے ترانے گاتے ہیں جنھیں تجارت اور خریدوفروخت اللہ تعالیٰ کے زکر سے غافل نہیں کرسکتی۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1ص492

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ