ایک آدمی دو یا تین فرض نمازیں پڑھتا اور پھر چار پانچ دن تک نماز چھوڑدیتا ہے۔اور یہی اس کا معمول ہے اور محض کاہلی سستی اور عدم اہتمام کے سوا اس کے پاس کوئی عذر بھی نہیں تو کیا اسے کافر قرار دیا جائے گا؟کیا اس کی بیوی اس کے نکاح میں رہ سکتی ہے ؟کیا تارک نماز کو زکواۃ دی جاسکتی ہے؟
جوشخص ہمیشہ کے لئے نماز ترک کردے یامحض سستی وکوتاہی او ر عدم اہتمام کی وجہ سے چند دنوں کے لئے نماز ترک کردے تو وہ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔والعیاذ باللہ! اس سے توبہ کا مطالبہ کیاجائے گا۔اگر یہ توبہ کرلے اور نماز پنجگانہ کو بروقت ادا کرلے تو الحمد للہ ورنہ اس کے مرتد ہونے کی وجہ سے اسے قتل کردیا جائے گا۔اور جب یہ ترک نماز کی وجہ سے کافر ہوگیا تو ا س کی بیوی بھی اس کے لئے حلال نہ رہی بلکہ اس کا ارتداد بیوی کے لئے طلاق یا فسخ عقد کا موجب ہوگا اگر بیوی کی عدت کے اند ر اندر یہ توبہ کرلے تو نئے عقد کے بغیر بیوی اس کے نکاح میں آجائے گی تارک نماز کو فرض مال زکواۃ بھی نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ اس کا اہل نہیں ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب