سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

تارک نماز کی مجلس اختیار کرنے کے بارے میں حکم

  • 10489
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 921

سوال

تارک نماز کی مجلس اختیار کرنے کے بارے میں حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا تارک نماز کی مجلس اختیار کرنا جائز ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جوشخص قصد وارادہ سے نماز کے وجوب کا انکار کرتے ہوئے نماز ترک کردے۔وہ باتفاق علماء کافر ہے اور جو شخص سستی وکاہلی کی وجہ سے نماز ترک کرے۔اہل علم کے صحیح قول کے مطابق وہ بھی کافر ہے لہذا بے نمازوں کی مجلس اختیار کرنا جائز نہیں بلکہ ضروری ہے کہ انہیں چھوڑ دیاجائے اور ان سے قطع تعلق کردیاجائے لیکن ضروری ہے کہ اس سے پہلے انہیں یہ سمجھایا جائے کہ نماز کا ترک کرنا کفرہے جب کہ یہ لوگ جاہل ہوں صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة ’فمن تركها فقد كفر))(سنن ترمذی)

‘‘ہمارے اوران (کفارومشرکین)کے درمیان عہد ،نماز ہے جو اسے ترک کردے وہ کافر ہے۔’’

اور یہ حکم عام ہے جو شخص نماز کے وجوب کا منکر ہو یامحض کوتاہی وسستی کی وجہ سے نماز ترک کرے سب کو شامل ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1ص485

محدث فتویٰ

تبصرے