سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

تارک نماز کافر ہے

  • 10485
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 2437

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بہت سے باپ اپنے بچوں کی تربیت خصوصاً دینی تربیت کا اہتمام نہیں کرتے بچوں کی تعلیم میں کوتاہی کاوہ عذر یہ پیش کرتے ہیں۔کہ کام کی وجہ سے وہ بہت تھک گئے ہیں تو ان لوگوں کے بارے میں آپ کی کیارائے ہے جو دعویٰ تو اسلام کاکرتے ہیں لیکن وہ رمضان کے روزے کم ہی رکھتے ہیں یا نماز بھی وہ کم ہی پڑھتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک مرد مومن کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنی اولاد کی تربیت کا وہ پورا پورا اہتمام کرے تاکہ حسب زیل ارشا د باری تعالیٰ پر عمل ہوسکے۔

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا قوا أَنفُسَكُم وَأَهليكُم نارً‌ا وَقودُهَا النّاسُ وَالحِجارَ‌ةُ عَلَيها مَلـٰئِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لا يَعصونَ اللَّهَ ما أَمَرَ‌هُم وَيَفعَلونَ ما يُؤمَر‌ونَ ﴿٦﴾... سورة التحريم

‘‘اے اہل ایمان!اپنےآپ کو اوراپنے اہل وعیال کو (آتش)جہنم سے بچاوجس کا ایندھن آدمی اورپتھر ہیں اورجس پر سخت دل اورسخت مزاج فرشتے (مقرر)ہیں اللہ تعالی انہیں جو حکم دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتےاوروہ جو حکم دئیے جاتے ہیں بجالاتے ہیں۔’’

مرد مومن کو چاہیے کہ اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرے۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں اس کے کندھوں پر  ڈالی ہے کہ:

الرجل راع في اهله ومسئول عن رعيه (صحيح بخاری)

مر د اپنے اہل خانہ کے بارے میں نگہبان ہے اور اپنی اس رعیت کے بارے میں اس سے پوچھا جائےگا۔''

لہذا اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ اپنی اولاد کی طرف توجہ نہ دے بلکہ اس پر واجب ہے کہ حسب حالات اورحسب جرائم انہیں ادب سکھائے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ:

مروا ابناء كم بالصلاة لسبع واضربوهم عليها لعشر (سنن ابي دائود)

''اپنے بیٹوں(یعنی اولاد) کو نماز کا حکم دو جب کہ وہ سات سال کے ہوں اور نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے انہیں مارو جب کہ وہ دس سال کے ہوں۔''

یاد رہے کہ مرد کے کندھوں پر جو یہ امانت ڈالی گئی ہے۔روز قیامت اس کے بارے میں اس سے باز پرس بھی ہوگی لہذا اسے چاہیے کہ صحیح جواب تیار کررکھے۔تاکہ اس ذمہ داری سے عہدہ برآہوسکے۔اور اپنے عمل کے پھل کو پاسکے کہ اگر عمل اچھا کیا تو پھل بھی اچھا اور اگر عمل بُرا کیا تو پھل بھی بُرا ہوگا اور بسا اوقات تو بُرے عمل کی سزادنیا میں بھی اسی طرح مل جاتی ہے کہ اولاد اس سے بُرا سلوک کرتی ہےنافرمان ہوجاتی ہے۔اور اپنے باپ کے حق کو ادا نہیں کرتی۔

جولوگ اسلام کادعویٰ تو کرتے ہیں۔ لیکن نماز روزے کی پابندی کم ہی کرتے ہیں تو ان کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ اگر یہ لوگ رمضان کے روزے اس لئے نہیں رکھتے کہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ روزہ واجب نہیں ہے۔بلکہ یہ تو ایک بدنی ر یاضت ہے۔اور انسان کو اختیار ہے کہ چاہے روزہ رکھے یا نہ رکھے تو یہ لوگ کافر ہیں۔کیونکہ انہوں نے فرائض اسلام میں سے ایک فرض کا انکار کیا ہے۔ اور جہالت کی وجہ سے انہیں معذور بھی قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ ایک اسلامی معاشرے میں رہ رہے ہیں۔

اگر یہ روزے کی فرضیت اور وجوب کا عقیدہ تو رکھتے ہیں لیکن عملاً روزہ نہیں رکھتے تو یہ نافرمان ہیں۔ اور اہل علم کے راحج قول کے مطابق انہیں کافر قرار نہیں دیا جائے گا۔

اگر یہ نماز بالکل نہیں پڑھتے تو کافر ہیں۔خواہ نماز کے وجوب کا انکار کریں یا انکار کیونکہ اس صورت میں ان کا کفر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔چنانچہ قرآن مجید کی سورۃ توبہ میں ارشاد ہے:

﴿فَإِن تابوا وَأَقامُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَوُا الزَّكو‌ٰةَ فَإِخو‌ٰنُكُم فِى الدّينِ ۗ...﴿١١﴾... سورة التوبة

''پھر اگر توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے اور زکواۃ دینے لگیں تودین میں تمہارے بھائی ہیں۔''

اورسورہ مریم میں ارشاد ہے:

﴿فَخَلَفَ مِن بَعدِهِم خَلفٌ أَضاعُوا الصَّلو‌ٰةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَو‌ٰتِ ۖ فَسَوفَ يَلقَونَ غَيًّا ﴿٥٩﴾... سورة مريم

‘‘پھر ان کے بعد ایسے ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کردیا اورخواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے،سوعنقریب ان کو گمراہی(کی سزا)ملے گی۔ہاں !جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور عمل نیک کئے تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہوں گے اور ان کا زرا نقصان نہ کیا جائےگا۔''

یہاں استدلال سورہ مریم کی اس دوسری آیت کریمہ سے ہے۔جس میں اللہ تعالیٰ نے نماز ضائع کرنے والوں اور خواہشات نفسائی کی پیروی کرنے والوں میں سے ان لوگوں کو مستثنیٰ قرار دیا جوتوبہ کریں اور ایمان لے آیئں تو اس سے معلوم ہوا کہ نماز ضائع اور خواہش نفسانی کی پیروی کرتے وقت وہ مسلمان نہیں ہیں۔اور یہ استدلال پہلی آیت سے ہے جو سورہ توبہ کی آیت ہے۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور مشرکین کے درمیان ثبوت اخوت کےلئےتین شرطیں قرار دی ہیں اور وہ یہ ہیں:1۔وہ شرک سے توبہ کریں۔2۔نماز قائم کریں اور3۔ذکواۃ ادا کریں۔اگر وہ شرک سے تو توبہ کرلیں۔لیکن نماز اور زکواۃ ادا نہ کریں تو وہ ہمارے بھائی نہیں ہیں۔ اور یاد رہے دینی اخوت کی نفی صرف اس وقت ہوتی ہے۔جب کوئی مومن مکمل طور پر دائرہ دین سے خارج ہوجائے فسق کے ساتھ اس اخوت کی نفی نہیں ہوتی جیسا کہ آیت قصاص:

﴿ فَمَن عُفِىَ لَهُ مِن أَخيهِ شَىءٌ فَاتِّباعٌ بِالمَعر‌وفِ وَأَداءٌ إِلَيهِ بِإِحسـٰنٍ... ﴿١٧٨﴾... سورة البقرة

''اور اگر قاتل کو اس کے (مقتول ) بھائی ( کے قصاص میں ) اےس کچھ معاف کردیا جائے تو (وارث مقتول کو) پسندیدہ طریق سے (افراد کی ) پیروی)(یعنی مطالبہ خون بہا) کرنا اور (قاتل کو) خوش خوئی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے ۔''

اس آیت میں عمداً قتل کرنے والے کو بھی اللہ تعالیٰ نے مقتول کا بھائی قرار دیا ہے حالانکہ قتل عمد بھی اکبر الکبائر میں سے ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ سے ثابت ہے:

﴿وَمَن يَقتُل مُؤمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خـٰلِدًا فيها وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذابًا عَظيمًا ﴿٩٣﴾... سورة النساء

''اور جو شخص مسلمان کو جان بوجھ کر مارڈالے گا تو اس کی سزادوزخ ہے۔جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا ۔اللہ اس پر غضب ناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا۔اور ایسے شخص کے لئے اس نے بڑا (سخت ) عذاب تیار کررکھا ہے۔''

یہ آیت کریمہ بھی اس کی دلیل ہے کہ ایمانی اخوت کی نفی کفر سے کم تر درجہ کے کسی جرم کی وجہ سے نہیں ہوتی۔

ترک نماز سے جب دینی اخوت کی نفی ہوجاتی ہے۔جیسا کہ سورۃ توبہ کی آیت سے واضح ہے۔تو اس سے معلوم ہوا کہ ترک نماز کفر دون کفر یا یہ فسق نہیں ہے۔ورنہ اس سے دینی اخوت کی نفی نہ ہوتی جس طرح قتل مومن سے نفی نہیں ہوتی اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کیا تم تارک ذکواۃ کو بھی کافر قرار دوگے جیسا کہ سورہ توبہ کی اس آیت کے مفہوم سے معلوم ہوتا ہے۔تو ہم کہیں گے ہاں بعض اہل علم نے تارک زکواۃ کو بھی کافر قرار دیا ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایک روایت یہی ہے لیکن ہمارے نزدیک راحج بات یہ ہے کہ تارک زکواۃ کافر نہیں ہے ہاں البتہ اس کی سزاسخت ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت میں بیان فرمایا ہے۔مثلا حدیث ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ہے۔جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مانعین زکواۃ کی سزا کو بیان کرتے ہوئے آخر میں فرمایا:

ثم يري سبيله اما الي الجنة واما الي النار (صحيح مسلم)

''پھر وہ اپنے راستے کو جنت کی طرف دیکھے گا یا جہنم کی طرف۔''

تو یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مانع زکواۃ کافر نہیں ہے۔کیونکہ اگر وہ کافر ہوتا تو پھر اس کا راستہ جنت کی طرف نہ ہوتا تو اس حدیث کا منطوق آیت توبہ کے مفہوم سے مقدم ہے کیونکہ مغموم سے مقدم ہوا کرتا ہے جیسا کہ اصول فقہ میں معروف ہے۔

سنت سے تارک نماز کے کفر کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ:

((بين الرجل وبين الكفر والشرك ترك الصلوة )) (صحيح مسلم)

‘‘آدمی اورکفر وشرک کے درمیان فرق،ترک نماز سے ہے۔’’

 اور بريده بن حصيب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہےکہ:

((العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة ’فمن تركها فقد كفر))

‘‘ہمارے اوران (کفارومشرکین)کے درمیان عہد ،نماز ہے جو اسے ترک کردے وہ کافر ہے۔’’

یہاں کفر سے مراد وہ کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کردیتا ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو مومنوں اور کافروں کے درمیان حدفاصل قرار دیا ہے۔اور ظاہر ہے ملت کفر اور ملت اسلام دو الگ الگ ملتیں ہیں۔تو جو شخص عہد نماز کی پابندی نہ کرے تو وہ کافروں میں سے ہے۔

صحیح مسلم میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ستكون امرا فتعرفون وتنكرون فمن عرف بري ء ومن انكر سلم ولكن من رضي وتابع قالوافلا نقاتلهم ؟قال: لا ماصلوا(صحيح مسلم)

''عنقریب کچھ ایسے امراء ہوں گے۔ کہ جن کو تم پہچانوگےبھی اور انکار بھی کرو گے۔جس نے پہچان لیا وہ بری ہوگیا اور جس نے انکار کردیا وہ سلامت رہا لیکن جو شخص ان سے راضی ہوگیا اور جس نے ان کی پیروی کی (وہ ہلاک ہوگیا)صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا''کیا ہم ان سے لڑائی نہ کریں؟''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''نہیں جب تک یہ نماز پڑھتے رہیں(تم ان سے لڑائی نہ کرو)''

اور حدیث عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

خِيَارُ أَئِمَّتِكُمْ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمْ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا نُنَابِذُهُمْ بِالسَّيْفِ فَقَالَ لَا مَا أَقَامُوا فِيكُمْ الصَّلَاةَ (صحیح مسلم حدیث نمبر 1855)

''تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرو وہ تم سے محبت کریں وہ تمہارے لئے دعایئں کریں اور تم ان کے لئے دعایئں کرو۔اور تمہارے بدترین حکمران وہ ہیں کہ تم ان سے بغض رکھو وہ تم سے بغض رکھیں تم ان پر لعنت بھیجو وہ تم پرلعنت بھیجیں۔'' صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا'' کیا ہم تلوار کے ساتھ انھیں ختم نہ کردیں؟'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا'' نہیں جب تک وہ نماز کو قائم رکھیں(ان کے خلاف تلوار کو نہ اٹھاؤ)۔''

یہ دونوں حدیثیں اس بات کی دلیل ہیں کہ اگر حکمران نماز قائم نہ کریں۔تو ان کے خلاف تلوار استعمال کرکے ان کا خاتمہ کردیا جائے اور یاد رہے کہ حکمرانوں سے لڑائی جھگڑا اور قتال صرف اسی صورت میں جائز ہے۔ جب وہ کفرصریح کا ارتکاب کریں اور ہمارے پاس اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح برہان ہو جیسا کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلایا تو ہم نے آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی۔ہم نے یہ بعیت کی کہ ہم پسندیدگی اور ناپسندیدگی میں مشکل میں اور آسانی میں اپنے اوپرترجیح دیئے جانے کی صورت میں بھی سمع وطاعت کا مظاہر ہ کریں گے۔ اور اہل لوگوں سے حکومت نہیں چھینیں گے ۔اسی سلسلہ میں فرمایا:

الا ان تروا كفرا بواحا عندكم من الله فيه برهان (صحيح بخاري)

''ہاں الا یہ کہ تم حکمرانوں سے صریح کفر کاارتکاب دیکھو او رتمہارے پاس اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے برہان ہو۔''

تو اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ حکمرانوں کانماز ترک کرنا جس کی وجہ سے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمرانوں کے ساتھ تلوار سے لڑنے کو بھی جائز قراردیا یہ کفر صریح ہے اور ترک نماز کے کفر صریح ہونے کی ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے برہان موجود ہے۔

کتاب وسنت میں کوئی ایسی دلیل موجود نہیں ہے۔جس سے یہ معلوم ہو کہ تارک نماز کافر نہیں ہے۔ یا یہ معلوم ہو کہ وہ مومن ہے یا یہ معلوم ہو کہ وہ جنت میں داخل ہوگا یا یہ معلوم ہو کہ وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا زیادہ سے زیادہ جو اس سلسلے میں وار دہے۔ وہ ایسی نصوص ہیں۔وتوحید اور لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت کی فضیلت پر دلالت کرتی اور اس کا ثواب بیان کرتی ہیں اور یہ نصوص یا تو کسی ایسے وصف کے ساتھ مقید ہیں جس کے ساتھ ترک نماز ممکن ہی نہیں یا یہ معین حالات کے بارے میں وار د ہیں۔جن میں انسان ترک نماز کے لئے معذور ہوتا ہے۔یا یہ عام ہیں۔ اور انہیں تارک نماز کے کفر کے دلائل پر محمول کیا جائے گا۔کیونکہ تارک نماز کے کفر کے دلائل خاص ہیں۔اور خاص عام سے مقدم ہوتا ہے جیسا کہ اصول حدیث اور اصول فقہ میں یہ ایک معروف اصول ہے۔

اگر کوئی شخص یہ کہے کیا یہ جائز نہیں کہ تارک نماز کے کفر پر دلالت کرنے والے نصوص کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ ان سے مراد وہ شخص ہے جو نماز کے وجوب کا انکارکرتے ہوئے اس کاترک کرے؟ہم عرض کریں گے کہ نہیں یہ تاویل جائز نہیں۔کیونکہ ا س میں دو رکاوٹیں ہیں۔اس وصف کا ابطال لازم آتا ہے۔ جسے شریعت نے معتبر قرار دیا اور جس کے مطابق حکم عائد کیا ہے۔یعنی شریعت نے ترک نماز پر کفر کا حکم لگایا ہے اور یہاں یہ نہیں کہا کہ جو کوئی نماز کے وجوب کا انکار کرتے ہوئے ترک کرے وہ کافر ہے۔اور پھر محض اقامت نماز کی بنیاد پر دینی اخوت کو قائم کیاہے۔ اور یہ نہیں کہا کہ دینی بھائی و ہ ہیں جو نماز کے وجوب کااقرارکریں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی نہیں فرمایا کہ اگر وہ توبہ کرلیں اور وجوب نماز کا اقرار کرلیں تو۔۔۔اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ آدمی اور شرک وکفر کے درمیان فرق وجوب نماز کے اقرار کی وجہ سے ہے کہ جو اس کے وجوب کا انکارکرے۔وہ کافر ہے۔اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مراد ہوتی تو اس سے روگردانی اس بیان کے خلاف ہوتی جسے قرآن نے پیش کیا ہے 'جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿ وَنَزَّلنا عَلَيكَ الكِتـٰبَ تِبيـٰنًا لِكُلِّ شَىءٍ ... ﴿٨٩﴾... سورة النحل

''اورہم نےآپ پرایسی کتاب نازل کی ہے کہ(اس میں)ہرچیز کا(مفصل)بیان ہے ۔''

اور جس کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:

﴿ وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم ... ﴿٤٤﴾... سورة النحل

‘‘اورہم نے آپ پرذکراورنصیحت (قرآن)نازل کیا تاکہ آپ لوگوں پر ان تعلیمات کو واضح کردیں جوان کی جانب نازل کی گئی ہیں ۔’’

اس میں دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ اس سے ایک ایسے وصف کا اعتبار لازم آتا ہے۔جسے شریعت نے مناط حکم قرار نہیں دیا۔ نماز پنجگانہ کے وجوب کا انکار موجب کفر ہے اس شخص کے لئے جو جہالت کی وجہ سے معذور ہو خواہ نماز پڑھے یا نہ پڑھے مثلاً ایک شخص اگر پانچوں نمازوں کو تمام شروط ارکان واجبات اور مستحبات سمیت ادا کرے۔لیکن وہ کسی عذر کے بغیر ان نمازوں کے وجوب کا منکر ہو تو وہ کافر ہوگا حالانکہ اس نے نماز کو ترک نہیں کیا تو اس سے معلوم ہوا کہ نصوص کو اس بات پر محمول کرنا کہ ان سے مراد وہ شخص ہے جو وجوب نماز کا انکار کرتے ہوئے ترک کرے صحیح نہیں ہے جبکہ صحیح اور حق بات یہ ہے کہ تارک نماز کافر ہے اور وہ اپنے اس کفر کے باعث ملت سے خارج ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ ابن ابی حاتم کی اس روایت میں اس کی صراحت ہے جو حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ:

اوصانا رسول الله صلي الله عليه وسلم لا تشركوا بالله شيئا ولاتتركوا الصلاة عمداً فمن تركها عمدا متعمدا فقد خرج من الملة

(مجمع الزوائد ...ابن ماجہ)

''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ وصیت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ  کسی کو شریک نہ بناؤ قصد وارادہ سےنماز ترک نہ کرو کیونکہ جو شخص قصد وارادہ سے جان بوجھ کر نماز ترک کردیتا ہے تو وہ ملت سے خارج ہوجاتا ہے۔''

نیز اگر ہم اسے ترک انکار پر محمول کریں تو پھر نصوص میں نماز کے بطور خاص زکر کا کوئی فائدہ نہ ہوگا کیونکہ یہ حکم تو نماز زکواۃ حج اور  ان تمام امور کے لئے عام ہے۔ جو دین کے واجبات وفرائض میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ ان میں سے کس ایک کا اس کے وجوب کے انکار کی وجہ سے ترک موجب کفر ہے بشرط یہ کہ انکا ر کرنے والا جہالت کی وجہ سے معذور نہ ہو۔جس طرح سمعی اثری دلیل کا تقاضا ہے کہ تارک نماز کو کافر قرار دیا جائے اسی طرح عقلی نظری دلیل کا بھی تقاضا ہے اور وہ اس طرح کہ جو شخص دین کے ستون نماز ہی کو ترک کردے تو اس کے پاس پھر ایمان کیسے باقی رہا؟نماز کے بارے میں اس قدر ترغیب آئی ہے۔جس کاتقاضا یہ ہے کہ ہر عاقل مومن اس کے ادا کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے اور اس کے تر ک کے بار ے میں اس قدر وعید آئی ہے جس کا ہر عاقل مومن سے تقاضا یہ ہے کہ وہ اس کے ترک سے اور سے ضائع کرنے سے مکمل احتیاط برتے کیونکہ اگر اسے ترک اور ضائع کردیا گیا تو اس کا تقاضا یہ ہوگا کہ پھر ایمان بھی باقی نہ رہے!

جہاں تک اس مسئلے میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے قول کا تعلق ہےتو جمہور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی رائے یہ ہے بلکہ کئی ایک علماء نے کہا ہے اس پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ہے کہ تارک نماز کافر ہے۔عبد اللہ بن شقیق بیان کرتے ہیں کہ:

كان اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم لا يرون شيئا من الاعمال تركه كفر غير الصلاة(سنن ترمذی)

''حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اعمال میں سے ترک نماز کے سوا او ر کسی عمل کو  کفر نہیں سمجھتے تھے۔''(ترمذی امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح اور شیخین کی شرط کے مطابق قرار دیا ہے)

مشہور امام اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث سے یہ ثابت ہے کہ تارک نماز کافر ہے او ر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر آج تک اہل علم کی یہی رائے ہے۔ کہ جو شخص قصد وارادے سے بغیر کسی عذر کے نماز چھوڑ دے حتیٰ کہ اس کا وقت ختم ہوجائے تو وہ کافر ہے۔

امام ابن حزم  رحمۃ اللہ علیہ نے زکر کیا ہے کہ حضرت عب الرحمٰن بن عوف معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے بھی ثابت ہے کہ تارک نماز کافر ہے۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی نے اس مسئلہ میں ان کی مخالفت بھی نہیں کی۔علامہ منذری نے ''الترغیب والترہیب'' میں امام ابن حزم کا یہ قول نقل کیا ہے اور انہوں نے اس سلسلہ میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سےکچھ مذید نام بھی شمار کروائے ہیں۔مثلا عبدا للہ بن مسعود ۔عبد اللہ ابن عباس جابر بن عبد اللہ اور ابودرداء رضوان اللہ عنہم اجمعین اور غیر صحاب کرام میں سے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ عبدا للہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نخعی ۔حکم بن عتیبہ ایوب سختیانی ابو دائود طیالسی ابو بکر بن ابی شیبہ زہیر بن حرب اور بہت سے دیگر علماء کرا م کا بھی یہی مذہب ہے۔ میں کہتا ہوں کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کامشہور مذہب بھی یہی ہے اور اما م شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول بھی یہی ہے۔جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے آیت کریمہ (فخلف من بعدھم خلف۔۔۔) کی تفسیر میں زکر فرمایا ہے۔ حافظ ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ''کتاب الصلواۃ'' میں لکھا ہے۔ کہ امام شافعی کے مذہب میں ایک قول یہی ہے۔ اور اسے امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ خود اما م شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے خود نقل کیا ہے۔

اگر کہاجائے کہ اس کاکیاجواب ہے جس سے تارک نماز کو کافر نہ سمجھنے والوں نے استدلال کیا ہے؟اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ جن دلائل سے انہوں نے استدلا ل کیا ہے۔ ان کی اس موضوع پر اصلاً دلالت ہی نہیں ہے۔کیونکہ یا تو یہ ایسے وصف سے مقید ہیں کہ اس کے ساتھ ترک نماز ہے ہی نہیں یا یہ ایسی حالت کے ساتھ مقید ہیں جس میں تارک نماز معذور سمجھاجاتا ہے۔ یا وہ دلائل عام ہیں تارک نماز کی تکفیر کے دلائل کے ساتھ ان کی تقصیر کردی جائےگی تارک نماز کو کافر قرار ن دینے والوں نے جن دلائل سے استدلال کیا ہے وہ ان مذکورہ بالا چار حالتوں سے خالی نہیں ہیں۔

یہ مسئلہ بہت عظیم اور اہم مسئلہ ہے۔انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنی ذات کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور نماز کی حفاظت کرے تاکہ اس کا شمار بھی ان لوگوں میں سے ہو جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿قَد أَفلَحَ المُؤمِنونَ ﴿١ الَّذينَ هُم فى صَلاتِهِم خـٰشِعونَ ﴿٢ وَالَّذينَ هُم عَنِ اللَّغوِ مُعرِ‌ضونَ ﴿٣ وَالَّذينَ هُم لِلزَّكو‌ٰةِ فـٰعِلونَ ﴿٤ وَالَّذينَ هُم لِفُر‌وجِهِم حـٰفِظونَ ﴿٥ إِلّا عَلىٰ أَزو‌ٰجِهِم أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُم فَإِنَّهُم غَيرُ‌ مَلومينَ ﴿٦﴾... سورة المؤمنون

''بلاشبہ ایمان والے رستگار (کامیاب) ہوگئے۔جو نماز میں عجزونیاز کرتے ہیں اور جو بے ہودہ باتوں سے منہ موڑے رہتے ہیں اور جو زکواۃ ادا کرتے ہیں اور جو اپنی شر م گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں سے (یا کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہیں۔کہ (ان سے مباشرت کرنے سے ) انہیں ملامت نہیں ۔''

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1ص476

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ