سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

تارک نماز اور تارک جماعت

  • 10477
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1181

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تارک نماز کے بارے میں کیا حکم ہے؟ نیز نماز باجماعت ادا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کمیٹی نے استفتاء کے مطالعہ کے بعد اس کا درج زیل جواب لکھا:

 نماز شہادتین کے بعد اسلام کے ارکان خمسہ میں سے سب سے اہم رکن ہے۔تو شخص اس کے وجوب کا انکار کرتے ہوئے اسے ترک کردے تو تمام مسلمانوں کے اجماع کے مطابق وہ کافر ہے۔ اور جو شخص محض غفلت اور سستی کی بنا پر ترک کرے علماء کے صحیح قول کے مطابق وہ کافر ہے اور اس قول کی اصل بنیاد وہ حدیث ہے جسے امام مسلم نے اپنی ''صحیح '' میں ان الفاظ میں روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((بين الرجل وبين الكفر والشرك ترك الصلوة )) (صحيح مسلم)

‘‘آدمی اورکفر وشرک کے درمیان فرق،ترک نماز سے ہے۔’’

نیزوه روايت كہ جسے امام احمد نے''مسند'' میں اور ترمذی نے ''جامع'' میں روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة ’فمن تركها فقد كفر))

‘‘ہمارے اوران (کفارومشرکین)کے درمیان عہد ،نماز ہے جو اسے ترک کردے وہ کافر ہے۔’’

باقی رہا نماز باجماعت ادا کرنا تو یہ بھی واجب عین ہے جیسا کہ کتاب وسنت کے دلائل سے ثابت ہے مثلاً ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِذا كُنتَ فيهِم فَأَقَمتَ لَهُمُ الصَّلو‌ٰةَ فَلتَقُم طائِفَةٌ مِنهُم مَعَكَ وَليَأخُذوا أَسلِحَتَهُم...﴿١٠٢﴾... سورة النساء

‘‘اور(اےپیغمبر!)جب تم ان(مجاہدین کےلشکر)میں ہواوران کونمازپڑھانےلگوتوچاہئےکہ ان کی ایک جماعت تمہارےساتھ مسلح ہوکرکھڑی رہے''

اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا کہ آپ حالت خوف میں بھی نماز باجماعت ادا فرمایئں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حالت امن میں نماز باجماعت ادا کرنا تو بالاولیٰ فرض ہےسنت سے اس کی دلیل یہ ہے کہ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نابینا آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا ''یا رسول اللہ!( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے پاس کوئی معاون نہیں جو مجھے مسجد میں لے جائے تو کیا میرے لئے گھر میں نماز ادا کرنے کی رخصت ہے؟''تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

هل تسمع النداء بالصلاة؟ قال نعم :قال فاجب (صحیح مسلم)

''کیا تم نماز کےلئے اذان سنتے ہو؟'' تو اس نے کہا ''جی ہاں ''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا'' پھر اذان کی آواز پر لبیک کہو۔''

مسند احمد كی ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ:

لااجد لك رخصة (سنن ابی داؤد)

'' نہیں میں تمہارے لئے کوئی رخصت نہیں پاتا۔''

تو اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب ایک نابینا آدمی کے لئے ترک جماعت کی رخصت نہیں تو بینا کے لئے تو بالاولیٰ یہ رخصت نہیں اور اس کی تایئد اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے گھروں کو آگ لگا دینے کا اراد ہ فرمایا تھا جو مسجد میں نماز باجماعت ادا کرنے کے لئے نہیں آتے اور ظاہر ہے کہ جو شخص کسی امر مستحب یا فرض کفایہ سے پیچھے رہے تو اسے تو اس طرح کی سرزنش نہیں کی جاسکتی۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1ص473

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ