میراایک دوست میرے بہت ہی قریب رہتا ہے ،مسجد بھی ہمارے گھر سے بہت ہی قریب ہے لیکن میرا دوست نماز فجر کے لئے مسجد میں نہیں جاتا کیونکہ وہ رات ٹیلی وژن دیکھنے اورتاش کھیلنے کے لئے صبح کی ابتدائی گھڑیوں تک بیداررہتا ہے اورپھر نماز صبح طلوع آفتاب کے بعد اداکرتا ہے۔میں نے اسے بہت سرزنش کی لیکن اس کا عذر یہ ہوتا ہے کہ وہ صبح کی اذان نہیں سنتا حالانکہ مسجد ہمارےگھر کے بہت ہی قریب ہے ۔میں نے کہا کہ نماز کے لئے میں تمہیں بیدار کردیا کروں گا،چنانچہ فی الواقع میں نے اسے بیداربھی کیا لیکن اس کے باوجود اسے مسجد میں نہ دیکھا اورنماز سے واپس آکر دیکھاتووہ سویا ہوا تھا۔میں نے اسے سرزنش کی تو اس نے بودے حیلے بہانے پیش کرنے شروع کردئیے حتی کہ بسااوقات اس نے یہ بھی کہا ‘‘کیا قیامت کے دن اللہ تعالی تم سے میرے بارے میں اس لئے باز پرس کرے گا کہ میں تمہارا پڑوسی تھا؟’’براہ کرم رہنمائی فرمائیں اوربتائیں ،کیا نماز کے لئے اسے بیدار کرنا میری ذمہ داری ہے یا نہیں؟
کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ رات کو اس قدر بیداررہے جس کی وجہ سے وہ نماز فجر باجماعت یا بروقت ادانہ کرسکے خواہ یہ بیداری قرآن مجید کی تلاوت یا طلب علم ہی کے لئے ہو،تو اس سے اندازہ فرمائیے کہ ٹیلی وژن دیکھنے اورتاش کھیلنے کے لئے بیداری کی کہاں تک گنجائش ہوسکتی ہے؟
اپنے اس عمل کی وجہ سے یہ شخص اللہ تعالی کی سزاکا مستحق ہے نیز یہ اس بات کا مستحق ہے کہ حکمران بھی اسے سزادیں جس کی وجہ سے یہ اوراس جیسے دیگر لوگ اپنی اصلاح کرلیں ۔ نماز فجر کو دانستہ طلوع آفتاب تک موخر کرنا تمام اہل علم کے نزدیک کفر اکبر ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
‘‘آدمی اورکفر وشرک کے درمیان فرق،ترک نماز سے ہے۔’’
نیزآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہےکہ:
‘‘ہمارے اوران (کفارومشرکین)کے درمیان عہد ،نماز ہے جو اسے ترک کردے وہ کافر ہے۔’’
اس حدیث کو امام احمد اوراہل سنن نےحضرت بریدہ حصیب رضی اللہ عنہ سےصحیح سندکے ساتھ روایت کیا ہے۔اس باب میں اوربھی بہت سی احادیث اورآثار ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جوشخص جان بوجھ کر کسی شرعی عذر کے بغیر نماز کو اس قدر موخر کرے کہ اس کاوقت ختم ہوجائے تووہ کافر ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب