ہمیں ایک خط موصول ہوا ہے جس میں ایک طبع شدہ ورقہ بھی ہے جسے لوگوں میں تقسیم کیا جارہا ہے اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے یہ حدیث بھی لکھی ہوئی ہےکہ جو شخص نماز میں سستی کرے تو اللہ تعالی اسے پندرہ سزائیں دے گا۔۔۔۔۔’’الخ۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
یہ ایک جھوٹی حدیث ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔یہ قطعا صحیح نہیں جیسا کہ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے‘‘میزان’’میں اورحافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے ‘‘لسان المیزان’’میں بیان فرمایا ہے،لہذا جس شخص کو یہ ورقہ ملےاسے چاہئے کہ اسے جلادے اورجسے تقسیم کرتے ہوئے دیکھے اسے سمجھادے تاکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دفاع کیا جاسکے اورآپ ؐ کی سنت کو کذاب لوگوں کے کذب سے محفوظ کرلیا جائے۔نماز کی عظمت وشان،اس میں سستی وغفلت سےبچنے کی تلقین اورسستی وغفلت کا مظاہرہ کرنے والے کی وعید کے بارے میں جو کچھ قرآن عظیم اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت صحیحہ میں موجود ہے وہ کاذبوں کے کذب سے بے نیاز کردینے والاہے ۔مثلا ارشاد باری تعالی ہے:
‘‘(مسلمانو!)سب نمازیں خصوصا درمیانی نماز(یعنی نمازعصر)پورے التزام کےساتھ اداکرتے رہواوراللہ تعالی کے سامنے ادب سے کھڑے رہا کرو۔’’
نیز فرمایا:
‘‘پھر ان کے بعد ایسے ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کردیا اورخواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے،سوعنقریب ان کو گمراہی(کی سزا)ملے گی۔’’
نیز فرمایا:
‘‘تو ایسے نمازیوں کےلئے(جہنم کی وادی ویل یا)خرابی ہےجو اپنی نماز سےغافل رہتےہیں۔’’
اس مضمون کی اوربھی بہت سی آیات ہیں۔اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کارشاد گرامی ہے کہ :
(سنن ترمذی)
‘‘وہ عہد جوہمارے اوران کے مابین ہے،نمازہے،جواسے ترک کردے وہ کافر ہے۔’’(احمد،اہل سنن باسنادصحیح)نیز آپؐ نے فرمایاہے کہ
‘‘آدمی اورکفر وشرک کے درمیان فرق، ترک نماز سے ہے۔’’
(صحیح مسلم)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن حضرات صحابہ کرام کے لئے رضی اللہ عنہم کے پاس نماز کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
(مسند احمد)
‘‘جس نے نماز کی حفاظت کی تونماز اس کے لئے قیامت کے دن نور،برہان اور ذریعہ نجات بن جائے گی اورجس نے اس کی حفاظت نہ کی توروزقیامت اس کے پاس نہ نور،نہ برہان اورنہ ذریعہ نجات ہوگا بلکہ قیامت کے دن اسے فرعون ،ہامان،قارون اورابی بن خلف کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔’’
بعض علماء نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ نماز ضائع کرنے والے کو روز قیامت ان کافروں کے ساتھ اس لئے اٹھایا جائے گا کہ اگراس نے حکمرانی کی وجہ سے نماز کو ضائع کیا ہے تو وہ فرعون کے مشابہ ہے لہذا اسی کے ساتھ اسے روز قیامت جہنم رسید کیا جائے گا،اگر کسی نے اسے وزارت یا دیگر اہم منصبوں پر فائز ہونے کی وجہ سے ضائع کیا ہے توفرعون،کے وزیر ہامان کے ساتھ اس کی مشابہت ہے لہذا قیامت کے دن اسی کے ساتھ اسے جہنم رسید کیاجائے گا،اگرمال ودولت کی فروانی اورخواہشات نفسانی نماز کے ضائع کرنے کا سبب ہے تو اس کا یہ عمل اس قارون جیسا ہے جسے اللہ تعالی نے اس کے گھر سمیت زمین میں دھنسا دیا تھا کہ مال ودولت کی فروانی اورخواہشات نفسانی کی وجہ سے اس نے تکبر کی روش اختیار کی اورحق کی اتباع نہ کی ۔لہذا ایسے شص کا قیامت کے دن جہنم جاتے وقت قارون کے ساتھ حشر ہوگااوراگراس نے نماز کو تجارت اوردیگر امورومعاملات کی وجہ سے ضائع کیا تو اس کا یہ عمل مکہ کے تاجروں کے کافر سردارابی بن خلف سے مشابہت رکھتا ہے ،لہذا روز قیامت اسے ابی بن خلف کی رفاقت میں واصل جہنم کیا جائے گا۔ہم اللہ تعالی سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں عافیت عطافرمائے اوران اوران جیسے دیگر کافروں کے حالات سے بچائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب