سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(246) سجدے کو جاتے وقت کی کیفیت کیا ہونی چاہیے؟

  • 1043
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1256

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سجدہ کو جاتے وقت کیا کیفیت ہونی چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

سجدہ پہلے گھٹنوں پر اور پھر دونوں ہاتھوں پر ہونا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے آدمی کو پہلے اپنے دونوں ہاتھوں پر سجدہ کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے:

«اِذَا سَجَدَ اَحَدُکُمْ فَلَا يَبْرُکْ کَمَا يَبْرُکُ الْبَعِيْرُ، وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ قَبْلَ رُکْبَتَيْهِ» (سنن ابي داؤد، الصلاة، باب کيف يضع رکبتيه قبل يديه، ح: ۸۴۰ وسنن النسائي، الصلاة، باب اول ما يصل الی الارض من الانسان في سجوده، ح: ۱۰۹۲ ومسند احمد: ۲/ ۳۸۱)

’’جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو وہ اونٹ کی طرح نہ بیٹھے بلکہ اپنے دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں سے پہلے رکھے۔‘‘

یہ حدیث کے الفاظ ہیں، اب ہم ان کی وضاحت کریں گے۔ ان میں سے پہلے جملے: (اس طرح نہ بیٹھے جیسے اونٹ بیٹھتا ہے) میں سجدہ کی کیفیت کی ممانعت ہے کیونکہ یہاں کاف حرف تشبیہ استعمال ہوا ہے، لہٰذا یہاں اس عضو کی ممانعت نہیں ہے جس پر سجدہ کرنا ہے کیونکہ اگر عضو کی ممانعت ہوتی تو پھر الفاظ یہ ہوتے ’’فَـلَا يَبْرُکْ کَمَا يَبْرُکُ الْبَعِيْرُ‘‘ تو تب ہم کہتے کہ سجدہ کو جاتے وقت اپنے دونوں گھٹنوں پر نہ بیٹھو کیونکہ اونٹ اپنے دونوں گھٹنوں پر بیٹھتا ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ نہیں فرمایا: ’’لَا يَبْرُکْ عَلٰی مَا يَبْرُکُ عَلَيْهِ‘‘ بلکہ آپ نے یہ فرمایا ہے: ’’لَا يَبْرُکْ کَمَا يَبْرُکُ‘‘ یعنی ممانعت کیفیت وصفت کی ہے، اس عضو کی نہیں ہے جس پر سجدہ کیا جاتا ہے۔

اسی وجہ سے امام ابن قیم رحمہ اللہ  نے زاد المعاد میں پورے وثوق سے لکھا ہے کہ حدیث کے آخری الفاظ راوی سے تبدیل ہوگئے ہیں۔ حدیث کے آخری الفاظ یہ ہیں: ’’وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ قَبْلَ رُکْبَتَيْهِ‘‘ جب کہ یہ الفاظ صحیح اس طرح ہیں: ’’وَلْيَضَعْ رُکْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ‘‘ اس لیے کہ اگر وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھ دے تو وہ اونٹ ہی کی طرح بیٹھا کیونکہ اونٹ جب بیٹھتا ہے تو اپنے دونوں ہاتھوں (اگلے پاؤں) کو زمین پر پہلے رکھتا ہے۔ جس نے اونٹ کو بیٹھتے دیکھا ہے اس سے یہ بات مخفی نہیں ہے۔ اگر ہم یہ چاہیں کہ حدیث کے ابتدائی اور آخری الفاظ میں مطابقت ہو تو پھر الفاظ اس طرح ہونے چاہئیں: ’’وَلْيَضَعْ رُکْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ‘‘ کیونکہ اگر اس نے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھ دیا تو وہ اونٹ ہی کی طرح بیٹھا اور اس طرح حدیث کے ابتدائی اور آخری حصے میں آپس میں تناقض بھی ہوا۔ ایک بھائی نے اس مسئلہ کے بارے میں ’’فتح المعبود فی وضع الرکبتين قبل اليدين فی السجود‘‘ کے نام سے ایک اچھا اور مفید رسالہ بھی لکھا ہے۔ گویا سنت یہ ہے، جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سجدہ کو جاتے وقت حکم دیا ہے کہ انسان اپنے دونوں گھٹنوں کو زمین پر دونوں ہاتھوں سے پہلے رکھے۔(1)


(1)فاضل مفتی رحمہ اللہ  نے امام ابن القیم رحمہ اللہ  والا موقف اختیار کیا ہے، جو حدیث مذکور میں راوی کی طرف سے الفاظ کے بدلنے کے قائل ہیں۔ لیکن جمہور علماء کے نزدیک یہ موقف صحیح نہیں ہے۔ وہ حدیث کے الفاظ کو ’’مقلوب‘‘ (بدلے ہوئے) نہیں، بلکہ محفوظ ہی مانتے ہیں اور اس کی رو سے یہی بات راجح قرار پاتی ہے کہ سجدے میں جاتے وقت زمین پر پہلے ہاتھ رکھے جائیں اور گھٹنے بعد میں رکھے جائیں۔ (ص، ی)

 

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ279

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ