سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نماز میں قنوت

  • 10419
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1201

سوال

نماز میں قنوت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز فجر میں ہمیشہ دعائے قنوت پڑھنے کا کیا حکم ہے؟قنوت وتر کا کیا حکم ہے؟ نماز مغرب کی طرح وتر کی تین رکعات پڑھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سوال میں دو مسئلے پوچھے گئے ہیں۔ ان میں سے پہلا مسئلہ نماز فجر میں قنوت کا ہے۔اس مسئلے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔اور یہی اس بات پر مبنی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے قنوت فرمایا' جس میں کچھ لوگوں کے لئے دعاء فرمائی یا کچھ لوگوں کےلئے آپ نے بددعا فرمائی مکہ میں رہنے والے کمزور مومنوں کےلئے آپ نے بددعا ء فرمائی اور ان لوگوں کےلئے بددعاء فرمائی جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قراء صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو(دھوکے سے) شہید کر دیاتھا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے ایک ماہ تک بددعاء فرماتے رہے۔(1) تو جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت پر غورکرے گا۔اس کے سامنے یہ حقیقت واضح ہوجائے گی۔کہ اس مسئلہ میں صورت حال یہ ہے کہ فرائض میں قنوت نہیں الا یہ کہ مسلمان کسی افتادہ میں مبتلا ہوں یا کسی حادثہ سے دو چار ہوں۔جس کی وجہ سے ضرورت اس امر کی ہو کہ تمام مسلمان الحاح وزاری کے ساتھ اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ قدس میں دعاء کریں ۔تو اس صورت میں قنوت کیا جائے دلائل کے ظاہر سے یہ بھی معلوم ہوتا ہےکہ قنوت نازلہ صرف نماز فجر ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ اسے تمام نمازوں میں اختیار کیا جاسکتاہے۔جہری نمازوں میں قنوت جہری اور سری نمازوں میں سر ی طور پر کیا جائےگا۔

ہماری رائے یہ ہے کہ اہم حوادث کے وقت قنوت کیا جائے پھر جب حالات معمول پر آجایئں تو قنوت نہ کیا جائے!باقی رہی سوا ل کی دوسری شق یعنی قنوت وتر تو وتر میں قنوت کرنا سنت ہے لیکن دوام واستمرار سنت نہیں ہے لہذا اگر بعض اوقات قنوت کرلے تو بہتر ہے اور اگر بعض اوقات ترک کردے تو یہ بھی بہتر ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسہ حضرت حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قنوت سکھایا تھا۔(2) لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ آپ خود بھی قنوت فرماتے تھے یا نہیں؟سائل نے جو پوچھا ہے کہ وتر کو نماز مغرب کی طرح ادا کرنے کا کیا حکم ہے۔تو یہ جائز نہیں کیونکہ جب انسان تین رکعت وتر پڑھے تو اسے اختیار ہے کہ اگر چاہے تو انہیں دو سلام کے ساتھ اداکرے۔یعنی دو رکعات پڑھ کر سلام پھیر دے اور پھر تیسری رکعت اکیلی پڑھ لے یا تینوں رکعات کوایک تشہد کے ساتھ پڑھ کر سلام پھیر دے وتر کی تین رکعات کو دو تشہد کے ساتھ نماز مغرب کی طرح ادا کرنے کی حدیث میں ممانععت آئی ہے۔


1.صحیح بخاری کتاب الوتر باب القنوت قبل الرکوع وبعدہ ح:1002 وصحیح مسلم کتاب المساجد باب استحباب القنوت فی جمیع الصلوات ۔۔۔ح:677)

2.سنن ابی داؤد ابواب الوتر'باب القنوت فی الوتر 'ح:1425۔1426'سنن ترمذی باب ماجاء فی القنوت فی الوتر 'ح:464)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1ص440

محدث فتویٰ

تبصرے