میرے ایک قریبی دوست کو ایک مسئلہ درپیش ہے، وہ خود چونکہ انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتے لہٰذا ان کے توسط سے یہ سوال میں یہاں پیش کر رہا ہوں۔ میرے دوست کی ایک جگہ شادی طے پائی ہے۔ شادی طے کرتے وقت والد، والدہ اور والد کا پورا خاندان اس شادی پر رضامند نہیں ہے،کیا اس کا نکاح درست ہے۔؟
شریعت مطہرہ میں نکاح کے لیے ولی کی اجازت کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ولی کی اجازت مرد کے لیے شرط نہیں ہے بلکہ یہ عورت کے ساتھ خاص ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(ابوداؤد: 2083)
’’جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا، اس کا نکاح باطل ہے۔ آپﷺ نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے۔‘‘
یہ حکم خواتین کے لیے ہے نہ کہ مردوں کے لیے۔ مرد خود اپنا ولی ہے وہ شریعت کے احکامات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہیں بھی اپنا نکاح کر سکتا ہے۔ البتہ لڑکے کو چاہئے کہ وہ نکاح کرتے ہوئے والدین کی رضامندی کو اولین ترجیح دے۔ اور حتی المقدور اپنے والدین کو ناراض نہ کرے۔ بالخصوص جب ان کی رضا میں شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ ہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(صحیح بخاری : 2408)
’’اللہ تعالیٰ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کو حرام فرما دیا ہے۔‘‘
اس تصریح کے بعد مذکورہ سوال کے جواب میں ہم یہی کہیں گے کہ والدہ کی رضامندی کے بغیر نکاح تو درست ہو گا۔ لیکن اگر والدہ اس وجہ سے راضی نہیں ہیں کہ وہ لڑکی میں کوئی شرعی عیب دیکھتی ہیں تو پھر والدہ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے شادی کے فیصلے پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب