سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نمازی کے سترہ کی حدود

  • 10374
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 996

سوال

نمازی کے سترہ کی حدود
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مسجدوں میں موجود قالینوں اور دریوں وغیرہ کے کناروں کو نمازی کے لئے سترہ قرار دیا جاسکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قالینوں اور دریوں وغیرہ کے کناروں کو نمازی کے لئے سترہ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ سنت ہے کہ سترہ پالان کی کیلی (پچھلی لکڑی) کے مانند کوئی کھڑی چیز ہویا اس سے کوئی اونچی چیز مثلا دیوار ستون اور کرسی وغیرہ بھی سترہ ہوسکتی ہے اگر اس طرح کوئی چیز پاس موجود نہ ہو تو امام یا منفر د ہونے کی صورت میں اپنے سامنے عصا وغیرہ کو گاڑ لے مقتدی کے لئے امام کا سترہ ہی کافی ہوگا۔اوراگر کسی ایسی جگہ نماز پڑھ رہا ہو جہاں سترہ کے لئے کوئی بھی چیز موجود نہ ہو تو پھر زمین پر خط کھینچ لے۔

اس مسئلہ میں اصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ:

اذا صلي احدكم فليصل الي ستره ولبدن منها(سنن ابي دائود)

''جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اسے چاہیے کہ سترہ کی طرف نماز پڑھے اور سترہ سے قریب ہوکرکھڑا ہو۔''

اس حدیث کو امام ابو دائود رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا ارشاد یہ ہے کہ:

يقطع صلاة المره المسلم اذا لم يكن بين يديه مثل موخرة الرجل المراة والحمار والكلب الاسود (صحيح مسلم)

 '' عورت گدھے اور کالے کتے کے (نمازی کے )آگے سے گزرنے سے مسلمان آدمی کی نماز ٹوٹ جاتی ہے'جب اس کے سامنے پالان کی کیلی کی طرح(سترہ) نہ ہو۔''

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یک اورارارشاد گرامی یہ بھی ہے کہ:

اذا صلي احدكم فليجعل تلقاء وجهه شيا فان لم يجد فليصب عصا فان لم يجد فليخط خطا ثم لا يضره من مر بين يديه (سنن ابن ماجه)

 جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو وہ اپنے چہر ے کے سامنے کوئی چیز رکھ لے اگرکوئی چیز نہ پائےتوعصا گاڑ لے اگر عصا بھی نہ ہوتو خط کھینچ لے تو پھر آگے سے گزرنے ولی کوئی چیز نقصاننہ دے گی۔''

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے''بلوغ المرام'' میں لکھا ہے۔کہ اس حدیث کو مضطرب قرار دینے والے کی بات درست نہیں ہے کیونکہ یہ حدیث حسن ہے

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1ص414

محدث فتویٰ

تبصرے