سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(240) نماز میں سورت فاتحہ پڑھنے کا حکم

  • 1036
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1671

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز میں سورئہ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

سورئہ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں علماء کے حسب ذیل مختلف اقوال ہیں:

٭           سورئہ فاتحہ پڑھنا، امام، مقتدی یا منفرد کسی کے لیے بھی واجب نہیں، نماز خواہ سری ہو یا جہری، کیونکہ واجب یہ ہے کہ قرآن مجید کا جو حصہ آسانی کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہو اسے پڑھ لیا جائے، اس لیے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَاقرَءوا ما تَيَسَّرَ مِنَ القُرءانِ...﴿٢٠﴾... سورة المزمل

’’آسانی کے ساتھ جتنا قرآن تمہیں یاد ہو اس کی تلاوت کرو۔‘‘

اور ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:

«اِقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ» (صحيح البخاري، الاذان، باب وجوب القراءة للامام والماموم، ح: ۷۵۷ وصحيح مسلم، الصلاة، باب وجوب قراءة الفاتحة فی کل رکعة، ح: ۳۹۷)

’’جتنا آسانی سے ہو سکے (اتنا) قرآن پڑھ لیا کرو۔‘‘

٭           سورئہ فاتحہ کا پڑھنا امام، مقتدی، منفرد، سری اور جہری نمازوں میں سے ہر ایک میں نماز کی ابتدا ہی سے جماعت میں شامل ہونے والے اور جس سے نماز باجماعت کا کچھ حصہ رہ گیا ہو، ان مین سے  سب کے لیے رکن ہے۔

٭           سورئہ فاتحہ کا پڑھنا امام اور منفرد کے حق میں تو رکن ہے لیکن مقتدی کے لیے یہ مطلقاً واجب نہیں ، نماز خواہ سری ہو یا جہری۔

٭           امام اور منفرد کے حق میں سری اور جہری نمازوں میں سورئہ فاتحہ کا پڑھنا رکن ہے اور مقتدی کے حق میں سری نماز میں پڑھنا تو رکن ہے لیکن جہری نمازوں میں رکن نہیں ہے۔

میرے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ سورئہ فاتحہ کا پڑھنا امام، مقتدی اور منفرد کے حق میں سری وجہری نماز میں سے دونوں میں رکن ہے، البتہ جو شخص امام کو حالت رکوع میں پائے تو اس سے اس حالت میں فاتحہ ساقط ہو جاتی ہے اور اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے حسب ذیل فرمان کا عموم ہے:

«لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ» (صحيح البخاري، الاذان، باب وجوب القراءة، ح: ۷۵۶ وصحيح مسلم، الصلاة، باب وجوب قراءة الفاتحة… ح: ۳۹۴)

’’جو شخص سورئہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں۔‘‘

اور فرمایا:

«مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيْهَا بِأُمِّ الْقُرْاٰنِ فَهِیَ خِدَاجٌ» (صحيح مسلم، الصلاة، باب وجوب قراء ة الفاتحة، ح: ۳۹۵)

’’جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورئہ فاتحہ نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے۔‘‘

خداج کا لفظ فاسد کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ حکم عام ہے اور اس کی دلیل حدیث حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ  بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نماز صبح سے فارغ ہوئے، تو آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  سے فرمایا:

«لَعَلَّکُمْ تَقْرَئُونَ خَلْفَ إِمَامِکُمْ قُالوا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللّٰهِ قَالَ لَا تَفْعَلُوا إِلَّ بأم القرآن ِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا» (سنن ابي داؤد، الصلاة، باب من ترک القراء ة فی صلاته، ح: ۸۲۳ وجامع الترمذي، الصلاة، باب ماجاء فی القراء ة خلف الامام، ح: ۳۱۱ ومسند احمد: ۵/ ۳۱۶)

’’شاید تم اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو۔‘‘ ہم نے عرض کیا: ہاں یا رسول اللہ! جلدی جلدی پڑھتے ہیں، تو آپ نے فرمایا: ’’تم فاتحۃ الکتاب کے سوا اور کچھ نہ پڑھو کیونکہ جو اسے نہیں پڑھتا اس کی کوئی نماز نہیں۔‘‘

مسبوق سے اس کے ساقط ہونے کی دلیل حدیث ابی بکرہ رضی اللہ عنہ  ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو حالت رکوع میں پایا تو صف میں داخل ہونے سے پہلے ہی جلدی سے رکوع میں چلے گئے اور حالت رکوع ہی میں صف میں داخل ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم  جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپؐ نے فرمایا: یہ کس نے کیا ہے۔ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ  نے عرض کیا: میں نے یا رسول اللہ! تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

«زَادَکَ اللّٰهُ حِرْصًا وَلاَ تَعُدْ» (صحيح البخاري، الاذان، باب: اذا رکع دون الصف، ح:۷۸۳)

’’اللہ تعالیٰ تمہارے شوق میں اضافہ فرمائے، دوبارہ ایسا نہ کرنا۔‘‘

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں اس رکعت کے دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا، جس میں وہ جلدی سے شامل ہوگئے تھے تاکہ وہ فوت نہ ہو، اگر اس حالت میں ان کے لیے سورئہ فاتحہ پڑھنا واجب ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اسے اس کا حکم دیتے جس طرح کہ آپ نے اس شخص کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا جس نے سکون واطمینان کے بغیر نماز پڑھ لی تھی۔(1) یہ تو ہے مسئلے کا پہلو نقلی اعتبار سے اور جہاں تک اس کا عقلی اعتبار سے تعلق ہے تو اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

مسبوق نے جب قیام کو نہ پایا، جو سورئہ فاتحہ پڑھنے کا مقام ہے تو اس سے سورئہ فاتحہ کا پڑھنا ساقط ہوگیا جیسا کہ وہ شخص جس کا ہاتھ کٹا ہوا ہو تو اس کے لیے ہاتھ کے بجائے بازو دھونا واجب نہیں ہے کیونکہ مقام کے فوت ہو جانے کے بعد اس سے فرض ساقط ہو جائے گا، اسی طرح جو شخص امام کو حالت رکوع میں پائے اس سے بھی فاتحہ پڑھنا ساقط ہو جائے گا کیونکہ اس نے قیام کو نہیں پایا جو فاتحہ پڑھنے کا مقام ہے اور اس سے یہاں قیام امام کی متابعت کی وجہ سے ساقط ہوا ہے۔

میرے نزدیک یہ قول راجح ہے اور اگر حدیث حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ  نہ ہوتی جس کی طرف ابھی ابھی اشارہ کیا گیا ہے، تو یہ قول راجح ہوتا کہ جہری نماز میں مقتدی پر سورئہ فاتحہ واجب نہیں ہے کیونکہ حصول اجر و ثواب میں سننے والا، پڑھنے والے ہی کی طرح ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام  سے فرمایا تھا:

﴿قَد أُجيبَت دَعوَتُكُما...﴿٨٩ ... سورة يونس

’’تمہاری (دونوں کی) دعا قبول کر لی گئی۔‘‘

حالانکہ دعا تو صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام  نے کی تھی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَقالَ موسى رَبَّنا إِنَّكَ ءاتَيتَ فِرعَونَ وَمَلَأَهُ زينَةً وَأَمولًا فِى الحَيوةِ الدُّنيا رَبَّنا لِيُضِلّوا عَن سَبيلِكَ رَبَّنَا اطمِس عَلى أَمولِهِم وَاشدُد عَلى قُلوبِهِم فَلا يُؤمِنوا حَتّى يَرَوُا العَذابَ الأَليمَ ﴿٨٨﴾... سورة يونس

’’اور موسیٰ نے کہا: اے ہمارے پروردگار! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں (بہت سا) سازو برگ اور مال و زردے رکھا ہے، اے پروردگار! تاکہ وہ لوگوں کو تیرے رستے سے گمراہ کر دیں، اے پروردگار! ان کے مال کو برباد کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے کہ ایمان نہ لائیں جب تک عذاب الیم نہ دیکھ لیں۔‘‘

کیا اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے یہ ذکر فرمایا ہے کہ ہارون علیہ السلام  نے بھی دعا کی تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ ﴿قَدۡ أُجِيبَت دَّعۡوَتُكُمَا﴾ ’’تم دونوں کی دعا قبول کر لی گئی۔‘‘ علماء فرماتے ہیں کہ واحد کے بعد تثنیہ کا صیغہ استعمال کرنے میں حکمت یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام  نے دعا کی اور ہارون علیہ السلام  نے آمین کہی تھی۔

اور جہاں تک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی حدیث:

«مَنْ کَانَ لَهُ اِمَامٌ فَقِرَاءَ ةُ الْاِمَامِ لَهُ قِرَاءَ ةٌ»( مسند احمد: ۳/ ۳۳۹ وسنن ابن ماجه، اقامة الصلاة، باب اذا قراء فانصتوا، ح: ۸۵۰)

’’جس شخص کا امام ہو تو امام کی قراء ت اس کی قراء ت ہے۔‘‘

کا تعلق ہے تو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ حدیث مرسل ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  نے اپنی تفسیر کے مقدمے میں لکھا ہے، پھر اس حدیث کے اطلاق کو اس سے استدلال کرنے والے بھی تسلیم نہیں کرتے، ان میں سے بعض لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ مقتدی پر سری نمازوں میں  قراء ۃ قرآن واجب ہے، گویا انہوں نے اس کے اطلاق کو تسلیم نہیں کیا۔

اگر یہ کہا جائے کہ اگر امام سکوت ہی نہ کرے، تو مقتدی سورئہ فاتحہ کب پڑھے؟ اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ امام جب پڑھ رہا ہو اس وقت مقتدی بھی اس کے ساتھ ساتھ پڑھ لے کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سورئہ فاتحہ کی قراء ت فرماتے تو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  بھی آپ کے ساتھ ساتھ پڑھ لیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

«لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأم القرآنِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا» (سنن ابي داؤد، الصلاة، باب من ترک القراء ة فی صلاته، ح: ۸۲۳ وجامع الترمذي، الصلاة، باب ماجاء فی القراء ة خلف الامام، ح: ۳۱۱ ومسند احمد: ۵/ ۳۱۶)

’’تم فاتحۃ الکتاب کے سوا اور کچھ نہ پڑھو کیونکہ جو اسے نہیں پڑھتا اس کی کوئی نماز نہیں۔‘‘

وباللہ التوفیق


(1)فاضل مفتی رحمہ اللہ  کی یہ بات تو صحیح ہے کہ سورئہ فاتحہ کا پڑھنا امام، مقتدی اور منفرد کے حق میں سری و جہری نماز میں رکن ہے۔ لیکن پھر امام کو حالت رکوع میں پانے والے شخص سے اس کی رکنیت کو ساقط فرما رہے ہیں۔ حالانکہ جن احادیث کے عموم سے وہ سب کے لیے سورئہ فاتحہ کے رکن ہونے کا اثبات فرما رہے ہیں، اس کے عموم میں تو مدرک رکوع بھی شاملہے، اس اعتبار سے اس کی یہ رکعت شمار نہیں ہونی چاہیے۔ رہی حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ  والی حدیث، جس سے موصوف رحمہ اللہ  نے مدرک رکوع سے سورئہ فاتحہ کی رکنیت ساقط ہونے پر استدلال کیا ہے، وہ کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے۔ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے جو الفاظ ارشاد فرمائے تھے۔ وہ تھے: (لَا تَعُدْ) ’’دوڑ کر نہ آنا‘‘ اور تیسرا احتمال یہ ہے کہ (لَا تَعُدَّ) ہو، یعنی ’’اس رکعت کو شمار نہ کرنا‘‘ اور چوتھا احتمال یہ ہے کہ (لَا تُعِدْ) یعنی تو نماز نہ دہرا تیری نماز درست ہے۔ اور یہ اصول ہے کہ (اِذَا جَائَ الْاِحْتِمَالُ بَطَلَ الْاِسْتِدْلَالُ) ’’جب ایک سے زیادہ احتمال ہوں، تو اس سے استدلال جائز نہیں رہتا۔‘‘ اس لیے مذکورہ الفاظ سے کسی ایک مفہوم پر استدلال کرنا صحیح نہیں۔ بنا بریں مدرک رکوع کی رکعت کے صحیح ہونے کا فتویٰ دینا بھی غیر صحیح ہے۔ کیونکہ مدرک رکوع کے دو رکن فوت ہوگئے۔ ایک قیام اور دوسرا قراء ت فاتحہ اور نماز کا ایک رکن بھی فوت ہو جائے، تو وہ رکعت نہیں ہوتی۔ تو پھر دو رکن فوت ہو جانے کے باوجود اس رکعت کا شمار کرنا کیونکر صحیح ہوگا۔ (ص ، ی)

 

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ273

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ