السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب مقتدی امام کو رکوع کی حالت میں پائے تو کیا وہ دو تکبیریں کہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب انسان مسجد میں اس وقت داخل ہو جس وقت امام حالت رکوع میں ہو تو اسے تکبیر تحریمہ کہہ کر فوراً رکوع میں چلے جانا چاہیے، اس وقت رکوع کے لیے تکبیر کہنا سنت ہوگی واجب نہیں۔ اگر رکوع کے لیے تکبیر کہہ دے تو افضل ہے اور اگر نہ کہے تو کوئی حرج نہیں، اس کے بعد درج ذیل کئی حالتیں ہو سکتی ہیں:
٭ اسے یقین ہو کہ امام کے سر اٹھانے سے پہلے وہ رکوع میں چلا گیا تھا، اس حالت میں وہ رکعت کو پا لے گا اور اس سے فاتحہ ساقط ہو جائے گی۔(1)
٭ اسے یقین ہو کہ اس کے رکوع میں ملنے سے پہلے امام نے رکوع سے سر اٹھا لیا تھا، اس حالت میں اس کی یہ رکعت شمار نہیں ہوگی، اس بنیادپر اسے یہ رکعت دوبارہ پڑھنی پڑے گی۔
٭ اسے تردد اور شک ہو کہ اس نے امام کو رکوع میں پایا ہے یا اس کے رکوع میں جانے سے پہلے امام نے رکوع سے سر اٹھا لیا تھا؟ اس حالت میں وہ ظن غالب پر اعتماد کرے۔ اگر اس کے نزدیک یہ بات راجح ہو کہ اس نے امام کو رکوع میں پا لیا تھا تو اس کی یہ رکعت ہو جائے گی اور اگر راجح بات یہ ہو کہ اس نے امام کو رکوع میں نہیں پایا تھا تو اس کی یہ رکعت شمار نہ ہوگی۔ اس حالت میں اس کی نماز کا کچھ حصہ اگر رہ گیا ہو تو وہ سلام کے بعد سجدہ سہو کر لے اور اگر کچھ حصہ نہ رہا ہو بلکہ مشکوک پہلی رکعت ہی ہو اور ظن غالب یہ ہو کہ اس نے اسے پا لیا ہے تو اس حال میں سجدہ سہو ساقط ہو جائے گا کیونکہ اس کی نماز امام کی نماز کے ساتھ مربوط ہے اور اگر نماز کا کچھ حصہ مقتدی سے فوت نہ ہوا ہو تو پھرمقتدی کی طرف سے سجدہ سہو کا امام ہی متحمل ہے۔
حالت شک کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ انسان کسی بھی پہلو کو ترجیح نہ دے سکے تو اس صورت میں وہ یقین پر اعتماد کرے گا اور یقینی صورت یہ ہے کہ اس نے امام کو حالت رکوع میں نہیں پایا کیونکہ اصل یہی ہے، یہ رکعت گویا اس سے فوت ہوگئی ہے، لہٰذا اسے
(یہ رکعت دوبارہ ادا کرنی چاہیے اور) سلام سے پہلے سجدہ سہو کرنا چاہیے۔
یہاں میں ایک اور مسئلہ کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہوں گا کہ بہت سے لوگ مسجد میں اس وقت داخل ہوتے ہیں جب امام رکوع میں ہو تو وہ زور سے مسلسل کھکھارنا شروع کر دیتے ہیں اور بعض لوگ زبان سے یہ الفاظ بھی کہہ دیتے ہیں: ﴿اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصَّابِرِيْنَ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ اور بعض لوگ زمین پر پاؤں مارنے لگتے ہیں۔ یہ ساری باتیں خلاف سنت ہیں۔ ان سے امام اور مقتدیوں کے تشوش میں مبتلا ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ کچھ لوگ جب مسجد میں داخل ہوتے ہیں اور امام رکوع میں ہو تو وہ بہت نا مناسب طریقے سے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے:
«إِذَا سَمِعْتُمُ الْإِقَامَةَ فَامْشُوا إِلَی الصَّلَاةِ وَعَلَيْکُمْ بِالسَّکِينَةِ وَالْوَقَارِ وَلَا تُسْرِعُوا فَمَا أَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فَاتَکُمْ فَأَتِمُّوا» (صحيح البخاري، الاذان، باب لا يسعی الی الصلاة، ح: ۶۳۶ وصحيح مسلم، المساجد، باب استحباب اتيان الصلاة بوقار، ح: ۶۰۲، (۱۵۱)
’’جب تم اقامت سنو تو نماز کی طرف چلو اور سکون و وقار کو اختیار کرو اور جلدی نہ کرو۔ نماز کا جتنا حصہ پاؤ پڑھ لو اور جو نہ پا سکو اسے پورا کر لو۔‘‘
(1)مدرک رکوع کی رکعت کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں سلف ہی سے اختلاف چلا آرہا ہے، لیکن دلائل کی رو سے راجح بات یہی ہے کہ ایسے شخص کی رکعت نہیں ہوگی۔ کچھ نہ کچھ سہارے تو ہر شخص کو مل ہی جاتے ہیں۔ لیکن مسائل شرعیہ میں واضح نص کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو مسئلہ زیر بحث میں نہیں ہے۔ اس لیے نمازی کے لیے حکم تو یہی ہے کہ وہ امام کو جس حالت میں بھی پائے، امام کے ساتھ شامل ہو جائے، لیکن رکعت وہی شمار ہوگی جب آنے والا امام کو حالت قیام میں ملے اور اسے سورئہ فاتحہ پڑھنے کا موقع بھی مل جائے، اس لیے کہ سورئہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں۔ یہ مسئلہ واضح اور نہایت قوی نصوص سے ثابت ہے۔ (ص، ی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب