السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اقامت صفوف کے بارے میں معیار کیا ہے؟ کیا نمازی کے لیے حکم شریعت یہ ہے کہ وہ ساتھ کھڑے ہوئے انسان کے ٹخنے کے ساتھ اپنے ٹخنے کو لگائے؟ فتویٰ دیں، اللہ تعالیٰ آپ کو اجر و ثواب عطا فرمائے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح بات یہ ہے کہ صفوں کی برابری کے لیے معیار یہ ہے کہ دونوں ٹخنے ایک دوسرے کے برابر ہوں، انگلیوں کے کنارے نہیں، اس لیے کہ بدن ٹخنے سے مرکب ہے جب کہ پاؤں مختلف ہوتے ہیں، کسی کا پاؤں لمبا اور کسی کا چھوٹا ہوتا ہے، لہٰذا صفوں کی درستی اور برابری ٹخنوں ہی سے ہو سکتی ہے۔
ٹخنوں کے ایک دوسرے کے ساتھ ملانے کے بارے میں بھی بلا شک وشبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ وارد ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ٹخنوں کے ساتھ ٹخنے کو لگا کر صفوں کو برابر کیا کرتے تھے۔(1)
لیکن ٹخنوں کا ایک دوسرے کے ساتھ لگانا مقصود لذاتہ نہیں ہے بلکہ مقصود لغیرہ ہے جیسا کہ اہل علم نے ذکر کیا ہے، لہٰذا جب صفیں پوری ہو جائیں اور لوگ کھڑے ہو جائیں تو ہر ایک کو چاہیے کو وہ اپنے ٹخنے کو اپنے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ لگا دے تاکہ صفیں سیدھی اور برابر ہو جائیں، اس کے یہ معنی نہیں کہ ساری ہی نماز میں ایک دوسرے کے ٹخنے آپس میں چمٹے رہیں۔
اس مسئلہ میں غلو کی وجہ سے بعض لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ اپنے ٹخنے کو ملانے کے لیے اپنے پاؤں کو بہت زیادہ کھول لیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے کندھوں کے درمیان بہت فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے جو خلاف سنت ہے جب کہ مقصود یہ ہے کہ کندھے اور ٹخنے برابر ہوں۔
وباللہ التوفیق
(1)یہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے اس قول کی طرف اشارہ ہے کہ ہم میں سے ایک اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے اور اپنے پاؤں کو اس کے پاؤں کے ساتھ ملا لیا کرتا تھا۔ (صحیح البخاري، الاذان، باب الزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم فی الصف، حدیث: ۷۲۵)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب