سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

بارش کی وجہ سے ظہر وعصر کی نمازوں کوجمع کیالیکن۔۔۔

  • 10235
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 833

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بحوث العلماء والافتاء کی فتویٰ کمیٹی کے سامنے یہ افتاء آیا کہ لوگوں نے ظہر اور عصر کی نمازوں اور عشاء ومغرب کی نمازوں کو بارش کی صورت میں جمع تقدیم سے ادا کیا لیکن پھر بارش رک گئی تو کیا اس صورت میں عصر اورعشاء کی نمازوں کودوبارہ پڑھنا ہوگا یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کمیٹی نے استفتاء پڑھنے کے بعد درج زیل جواب دیا:

اہل علم نے زکرفرمایا ہے کہ وہ بارش جس سے کپڑے بھیگیں اور جس میں باہر نکلنے میں مشقت ہو تو اس کی وجہ سے دو نمازوں کو جمع کرکےپڑھا جاسکتا ہے کپڑے بھگو دینے والی بارش میں عشاء کو مغرب کے ساتھ جمع کرکے پڑھنے کے جواز پر اہل علم کا اتفاق ہے۔کیونکہ ابو سلمہ عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ''سنت یہ ہے کہ بارش کے دن مغرب اورعشاء کی نمازوں کوجمع کرکے ادا کرلیاجائے۔''(رواہ الاثرم) اور موطا میں روایت ہے کہ:

((ان رسول الله صلي الله عليه وسلم جمع بين المغرب والعشاء في ليلة مطيرة))

''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بارش والی رات مغرب وعشا کی نمازوں کو جمع کرکے ادا فرمایا۔''

ظہر وعصر کے جمع کرکے ادا کرنے کے جواز میں اہل علم میں اختلاف ہے بعض نے اسے جائز قرار دیا اوراس حدیث سے استدلال کیا ہے جسے حسن بن وضاح نے موسیٰ بن عقبہ س انہوں نے نافع اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منور میں بارش کی وجہ سے ظہر وعصر کو جمع کرکے ادا فرمایا'اس قول کوماضی اورابو الخطاب نے اختیا رکیا ہے۔ اور اما م شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب بھی یہی ہے اور بعض اہل علم کامذہب یہ ہے کہ بارش کی وجہ سے ظہر اور عصر کو جمع کرناجائز نہیں کیونکہ یہ جواز صرف مغرب وعشاء کے بارے میں ہے۔ کیونکہ ان نمازوں میں مشقت زیادہ ہوتی ہے۔ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ مغنی میں فرماتے ہیں۔کہ ظہر وعصر کو جمع کرنا جائز نہیں ہے۔ اثرم بیان کرتے ہیں کہ ابو عبد اللہ سے بارش میں ظہر وعصر جمع کرکے پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا''میں نے اس بارے میں کوئی حدیث نہیں سنی''ابو بکر بن حامد اور امام مالک کا یہی قو ل ہے۔پھر اس کے بعد ابن قدامہ نے ان دونوں نمازوں کوجمع کرکے ادا کرنے کے جواز کے قول کو زکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ہمارے لئے جمع کرنے کی دلیل ابو سلمہ کا قول ہے۔اوراجماع بھی صرف مغرب وعشاء کے جمع کرنے کے بارے میں ہے اور ظہر وعصر کوجمع کرنے کی حدیث صحیح نہیں ہے یہ حدیث صحاح وسنن میں موجود بھی نہیں ہے۔ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فرمانا کہ میں نے اس بارے میں کوئی حدیث نہیں سنی بھی اس بات پر دال ہے کہ یہ حدیث کچھ نہیں ہے۔ ظہر وعصر کو مغرب وعشاء پر قیاس بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان نمازوں میں اندھیرے اور نقصان کے اندیشے کی وجہ سے مشقت ہوتی ہے نیز انہیں سفر پر قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سفر میں قافلہ کے چلنے اور ساتھیوں کے بچھڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے اور یہاں اس قسم کا کوئی اندیشہ موجود نہیں ہے۔

دو نمازوں کو جمع کرنے کی صحت کی شرطوں میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ پہلی نماز کے افتتاح واختتام اور دوسری کے افتتاح کے وقت کوئی ایسا عذر موجود ہو۔جس کی وجہ سے جمع کرنا جائز ہو۔اگر تکبیر تحریمہ کے بعد وہ عذرختم ہوجائے جو پہلی نماز کے افتتاح واختتام اور دوسری نماز کے افتتاح کے وقت موجود تھا توباقی نماز میں اس عذر کی عدم موجودگی باعث مضرت نہ ہوگی تو اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ظہر وعصر کو جمع کرکے ادا کرنے کے جواز کے قائل ہیں۔ان کے بقول نماز عصر اور اسی طرح مغرب وعشاء کو جمع کرکے ادا کرنے والوں کو اس وقت نماز عشاء کے دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔جب تکبیر تحریمہ کے بعد عذر ختم ہوگیا ہو کیونکہ تکبیر تحریمہ کے وقت جواز کا عذر موجود تھا۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1ص347

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ