سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(183) نماز کے بارے میں کیا حکم ہے اور یہ کس پر واجب ہے

  • 1022
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2442

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز کے بارے میں کیا حکم ہے اور یہ کس پر واجب ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

نماز ارکان اسلام میں سے ایک ایسا رکن ہے، جس کے بارے میں سب سے زیادہ تاکید آئی ہے بلکہ شہادتین کے بعد یہ دوسرا بڑا اہم رکن ہے۔ اعضا کے ساتھ انجام دیے جانے والے اعمال میں سے اس کی سب سے زیادہ تاکید ہے۔ یہ اسلام کا ستون ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:

((عَمُودُہُ الصَّلَاۃُ)) (مسند احمد: ۲۳۱/۵ وجامع الترمذي، الایمان، باب ماجاء فی حرمة الصلاة، ح: ۲۶۱۶ وقال: حدیث حسن صحیح۔)

’’اس سے(مراد اسلام )کاستون نماز ہے۔‘‘

یعنی نماز اسلام کا ستون ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے نبی پر اس سب سے بلند جگہ پر فرض قرار دیا جہاں تک بشر پہنچ سکا ہے اور پھر اسے ایک اشرف (عظیم) رات میں بغیر کسی کے واسطہ کے فرض قرار دیا ہے۔ اللہ عزوجل نے پہلے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر دن رات میں پچاس بار نماز پڑھنا فرض قرار دیا تھا لیکن پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس میں تخفیف کر دی حتیٰ کہ بالفعل پانچ ہیں مگر میزان میں (اجر و ثواب کے اعتبار سے) پچاس شمارہوتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کس قدر اہمیت ہے اور اسے نماز سے کس قدر محبت ہے۔ یہ عبادت اس لائق ہے کہ انسان اس میں اپنا بہت سا وقت صرف کرے، اس کی فرضیت کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَإِذَا اطمَأنَنتُم فَأَقيمُوا الصَّلوةَ إِنَّ الصَّلوةَ كانَت عَلَى المُؤمِنينَ كِتـبًا مَوقوتًا ﴿١٠٣﴾... سورة النساء

’’پھر جب اطمینان نصیب ہو جائے تو (اس طرح سے) نماز پڑھو (جس طرح امن کی حالت میں پڑھتے ہو) بے شک نماز کا مومنوں پر اوقات (مقررہ) میں ادا کرنا فرض ہے۔‘‘

’’کتابًا، سے مراد مکتوبًا‘ہے‘ یعنی یہ کلمہ فرض کے معنی میں ہے۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے ہوئے ان سے فرمایا تھا:

((أَعْلِمْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَیْہِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِی کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ)) (صحیح البخاري، الزکاۃ، باب وجوب الزکاۃ، ح: ۱۳۹۵ وصحیح مسلم، الایمان، باب الدعاء الی الشہادتین وشرائع الاسلام، ح:۱۹۔)

’’لہٰذا انہیں آگاہ کر دیناکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔‘‘

تمام مسلمانوں کا بھی نماز کی فرضیت پر اجماع ہے، اس لیے علماء رحمہم اللہ نے فرمایا ہے کہ جب انسان پانچ فرض نمازوں یا ان میں سے کسی ایک کا انکار کر دے تو وہ کافر، مرتد اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے، اس کا خون اور مال مباح ہے الا یہ کہ وہ اللہ عزوجل کے آگے توبہ کر لے۔ ہاں! اگر وہ ایسا نیا نیا مسلمان ہو جسے ابھی تک شعائر اسلام کے بارے میں کچھ بھی علم نہ ہو تو اس حالت میں جہالت کی وجہ سے

وہ معذور ہوگا، پھر اسے بتایا جائے گا۔ اگر اس کے وجوب کے بارے میں علم ہوجانے کے بعد بھی وہ اس کی فرضیت کا انکار کرے تو وہ کافر ہوگا۔

نماز ہر مسلمان بالغ، عاقل، مرد اور عورت پر فرض ہے۔ مسلمان کی ضد کافر ہے، اور کافر پر نماز واجب نہیں ، یعنی حالت کفر میں وہ نماز اداکرنے کا مکلف نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد اس شخص پر اس کی قضا ادا کرنا لازم نہیں ۔ البتہ قیامت کے دن اسے (کافر کو) اس کی سزا ملے گی، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِلّا أَصحـبَ اليَمينِ ﴿٣٩ فى جَنّـتٍ يَتَساءَلونَ ﴿٤٠ عَنِ المُجرِمينَ ﴿٤١ ما سَلَكَكُم فى سَقَرَ ﴿٤٢ قالوا لَم نَكُ مِنَ المُصَلّينَ ﴿٤٣ وَلَم نَكُ نُطعِمُ المِسكينَ ﴿٤٤ وَكُنّا نَخوضُ مَعَ الخائِضينَ ﴿٤٥ وَكُنّا نُكَذِّبُ بِيَومِ الدّينِ ﴿٤٦﴾... سورة المدثر

’’مگر داہنی طرف والے (نیک لوگ کہ) وہ بہشت کے باغوں میں (ہوں گے اور) پوچھتے ہوں گے (اگ میں جلنے والے)گنہگاروں سے کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے ہو؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور نہ فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے اور ہم اہل باطل کے ساتھ مل کر (حق سے) انکار کرتے تھے اور ہم روز جزا کو جھٹلاتے تھے۔‘‘

ان کا یہ کہنا ہے کہ: ﴿لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ﴾ ’’ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔‘‘ اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں کفر اور قیامت کے دن کی تکذیب کے ساتھ ساتھ ترک نماز کی وجہ سے بھی سزا دی جائے گی۔

اور بالغ وہ ہے جس میں علامات بلوغ میں سے کوئی علامت پائی جائے۔ علامات بلوغ مرد کی نسبت سے تین اور عورت کی نسبت سے چار ہیں: (۱)عمر پوری پندرہ سال ہو جائے (۲)بیداری یا نیند میں لذت کے ساتھ منی کا انزال (۳)زیر ناف بالوں کا اگنا یعنی قبل کے اردگرد کھردرے بالوں کا اگنا۔ یہ تینوں علامتیں مردوں اور عورتوں میں مشترک ہیں جب کہ عورتوں میں ایک چوتھی علامت حیض بھی علامات بلوغ میں شمار ہوتی ہیں۔

عاقل کی ضد مجنون ہے یعنی جس میں عقل نہ ہو، اسی طرح بہت بڑی عمر کا مرد اور عورت جس کا بڑھاپا اس حد تک پہنچ جائے کہ اسے ہوش نہ رہے اس کا بھی اسی قبیل میں شمار ہوگا۔ اس قسم کے آدمی کو ہمارے ہاں مہذری ( گھوسٹ سٹھیاپن) کہا جاتا ہے۔ عقل باقی نہ رہنے کی وجہ سے ایسے شخص پر بھی نماز واجب نہ رہے گی۔ حیض ونفاس بھی وجوب نماز سے مانع ہیں۔ جب حیض یا نفاس ہو تو نماز واجب نہ ہوگی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

((اَلَیْسَ اِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ)) (صحیح البخاري، الحیض، باب ترک الحائض الصوم، ح: ۳۰۴۔)

’’کیا یہ بات نہیں کہ حالت حیض میں وہ نماز پڑھتی ہے نہ روزہ رکھتی ہے؟‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ232

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ