السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وہ شخص کیا کرے جو اپنے اہل خانہ کو نماز کا حکم دے مگر وہ اس کی بات کو نہ سنیں، کیا وہ ان کے ساتھ رہے یا گھر سے نکل جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر اہل خانہ بالکل نماز نہیں پڑھتے تو وہ کافر مرتد اور دائرۂ اسلام سے خارج ہیں، ان کے ساتھ رہنا سہنا جائز نہیں۔ لیکن واجب ہے کہ وہ انہیں اصرار کے ساتھ بار بار دعوت دیتا رہے، شاید اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے دے کیونکہ تارک نماز کتاب وسنت، اقوال صحابہ اور عقلی دلائل کی روشنی میں کافر ہے۔ والعیاذ باللہ
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بے نمازی کافر نہیں، میں نے ان کے دلائل پر غور کیا ہے، وہ درج ذیل چار حالتوں سے خالی نہیں ہیں:
٭ ان کے پاس اصلاً کوئی دلیل ہی نہیں ہے۔
٭ یا یہ کسی ایسے وصف کے ساتھ مقید ہیں، جس کے ساتھ ترک نماز ممنوع ہے۔
٭ یا یہ کسی ایسی حالت کے ساتھ مقید ہیں، جس میں تارک نماز معذور ہے۔
٭ یا یہ دلائل عام ہیں، جب کہ تارک نماز کے کفر کی احادیث خاص ہیں۔
کتاب وسنت سے یہ قطعاً ثابت نہیں کہ تارک نماز مومن ہے یا یہ کہ وہ جنت میں داخل ہوگا یا یہ کہ وہ دوزخ سے نجات پا جائے گا تاکہ ہم تارک نماز کے بارے میں وارد کفر کی یہ تاویل کر سکیں کہ اس سے مراد کفران نعمت یا کفر دون کفر ہے۔ جب یہ بات واضح ہوگئی کہ تارک نماز کافر اور مرتد ہے تو اس کے کفر پر مرتدین کے احکام مرتب ہوں گے، جو حسب ذیل ہیں:
۱۔ اسے رشتہ دینا صحیح نہیں۔ اگر اس کے نماز نہ پڑھنے کے باوجود عقد نکاح ہوگیا تو یہ نکاح باطل ہوگا اور اس کی وجہ سے بیوی اس کے لیے حلال نہ ہوگی کیونکہ مہاجر عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے:
﴿فَإِن عَلِمتُموهُنَّ مُؤمِنـتٍ فَلا تَرجِعوهُنَّ إِلَى الكُفّارِ لا هُنَّ حِلٌّ لَهُم وَلا هُم يَحِلّونَ لَهُنَّ...﴿١٠﴾... سورة الممتحنة
’’سو اگر تم کو معلوم ہو کہ وہ مومن ہیں تو ان کو کفار کے پاس واپس نہ بھیجو کیونکہ نہ یہ ان کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ ان کے لئے جائز ہیں۔‘‘
۲۔ اگر اس نے عقد نکاح کے بعد نماز کو ترک کیا ہے تو اس کا نکاح فسخ ہو جائے گا اور بیوی اس کے لیے حلال نہ ہوگی جیسا کہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہو رہا ہے جسے ہم نے قبل ازیں ذکر کیا ہے اور قبل از دخول اور بعد از دخول کے اعتبار سے اس کی تفصیل اہل علم کے ہاں معروف ہے۔
۳۔ یہ شخص جو نماز نہیں پڑھتا اگر وہ کسی جانور کو ذبح کرے تو اس کے ذبیحہ کو نہیں کھایا جائے گا، کیوں؟ کہ اس لیے کہ وہ حرام ہے۔ اگر کوئی یہودی یا عیسائی جانور ذبح کرے تو اس کے ذبیحہ کو ہمارے لیے کھانا حلال ہے، گویا بے نمازی کا ذبیحہ یہود ونصاریٰ کے ذبیحہ سے زیادہ خبیث ہے۔
۴۔ بے نمازی کے لیے مکہ مکرمہ یا حدود حرم میں داخل ہونا حلال نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا المُشرِكونَ نَجَسٌ فَلا يَقرَبُوا المَسجِدَ الحَرامَ بَعدَ عامِهِم هـذا...﴿٢٨﴾... سورة التوبة
’’اے مومنو! مشرک تو پلید ہیں، لہٰذا اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں۔‘‘
۵۔ اس کے قرابت داروں میں سے اگر کوئی فوت ہو جائے تو اس کی میراث میں اس کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ فرض کریں کہ اگر ایک شخص فوت ہو جائے اور اس کا بیٹا نماز نہ پڑھتا ہو، یعنی وہ شخص تو مسلمان ہے اور نماز پڑھتا ہے اور اس کا بیٹا نماز نہیں پڑھتا اور ایک اس کے چچا کا بیٹا (عصبہ) ہے تو اس کے چچا کا بیٹا جو قرابت میں اس سے دور ہے، وہ تو اس کا وارث ہوگا مگر اس کا اپنا حقیقی بیٹا اس کا وارث نہیں ہوگا کیونکہ حدیث حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ وَلَا الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ» (صحيح البخاري، الفرائض باب لا يرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم، ح: ۶۷۶۴ وصحيح مسلم، الفرائض، باب لا يرث المسلم الکافر ولا يرث الکافر المسلم، ح:۱۶۱۴)
’’مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوتا۔‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے:
«أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِیَ فَلِأَوْلَی رَجُلٍ ذَکَرٍ» (صحيح البخاري، الفرائض، باب ميراث الولد من ابيه وامه، ح: ۶۷۳۲ وصحيح مسلم، الفرائض، الحقوا الفرائض باهلها، ح: ۱۶۱۵)
’’میراث کے حصے ان کے حق داروں کو دے دو اور جو باقی بچ جائے وہ قریب ترین مرد کے لیے ہے۔‘‘
یہ مثال تمام وارثوں پر منطبق ہوتی ہے:
۶۔ بے نمازی جب مر جائے تو اسے غسل نہیں دیا جائے گا، کفن نہیں دیا جائے گا، اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی اور اسے مسلمانوں کے ساتھ دفن بھی نہیں کیا جائے گا، تو پھر اس کے ساتھ ہم کیا کریں؟ اسے صحرا میں لے جائیں گے اور ایک گڑھا کھود کر، اس کے اپنے کپڑوں سمیت اسے دفن کر دیں گے کیونکہ اس کی کوئی حرمت نہیں۔ لہٰذا کسی کے لیے یہ حلال نہیں کہ اس کے پاس کوئی ایسا شخص فوت ہو جائے جس کے بارے میں اسے معلوم ہو کہ یہ نماز نہیں پڑھتا، مگر وہ اسے مسلمانوں کے سامنے لائے تاکہ وہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں۔
۷۔ یہ قیامت کے دن فرعون، ہامان، قارون اور ابی بن خلف جیسے ائمہ کفر کے ساتھ اٹھایا جائے گا، (والعیاذ باللہ) یہ جنت میں بھی داخل نہیں ہوگا، اس کے گھر والوں میں سے کسی کے لیے یہ حلال نہیں کہ اس کے لیے رحمت ومغفرت کی دعا کرے کیونکہ وہ کافر ہے اور دعاء خیر کا مستحق نہیں ،اس لیے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ما كانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذينَ ءامَنوا أَن يَستَغفِروا لِلمُشرِكينَ وَلَو كانوا أُولى قُربى مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُم أَنَّهُم أَصحـبُ الجَحيمِ ﴿١١٣﴾... سورة التوبة
’’پیغمبر اور مسلمانوں کو شایان نہیں کہ جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ مشرک اہل دوزخ ہیں تو ان کے لیے بخشش مانگیں گو وہ ان کے قرابت دار ہی ہوں۔‘‘
یہ مسئلہ بے حد اہم ہے مگر افسوس کہ بعض لوگ اس معاملہ میں بہت سستی کرتے ہیں اور وہ اپنے گھر میں ایسے لوگوں کو برداشت کر لیتے ہیں جو نماز نہیں پڑھتے حالانکہ یہ جائز نہیں۔ تارکِ نماز کے بارے ایک یہ موقف ہے جو شیخ عثیمین رحمہ اللہ نے اس فتویٰ میں پیش فرمایا ہے اور علماء کا ایک دوسرا موقف یہ ہے کہ تارک نماز کا یہ عمل، جس پر حدیث میں (فَقَدْ کَفَرَ) کا اطلاق کیا گیا ہے، یہ کفر عملی ہے جس کا مرتکب ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوتا، اس لیے کہ بعض اور اعمال پر بھی کفر کا لفظ بولا گیا ہے، جیسے (سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر) گویا مسلمانوں کا باہم لڑنا بھی کفر ہے لیکن اس کے باوجود اللہ نے دونوں لڑنے والے گروہوں کو مومنین ہی سے تعبیر فرمایا ہے۔ (سورئہ حجرات) وعلی ہذا القیاس اور بھی متعدد دلائل ہیں۔ اس لیے جب تک اعتقادی وحجودی کفر کا ارتکاب نہیں ہوتا، کسی بھی مسلمان کو کفر عملی اور ارتکاب کبیرہ کی وجہ سے خارج عن الملۃ اور مرتد قرار نہیں دیا جا سکتا، نہ مرتد والے احکام ہی ان پر جاری کیے جا سکتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب