السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک کمپنی کے ملازمین نے مل کر یہ طے کیا ہے کہ ہر ملازم ہر ماہ اپنی تنخواہ میں سے ایک فیصد جمع کرواءے گا ،یعنی جس کی تنخواہ دس ہزار ہے وہ ایک فیصد سو روپے اور جس کی ایک لاکھ ہے وہ ایک فیصد ایک ہزار روپے جمع کروائے گا ،تین ماہ بعد جب ایک لاکھ روپے جمع ہونگے تو پرچی نکالیں گے جس کانام نکلے گا وہ عمرہ پر جائے گا ،کیا یہ طریقہ درست ہے ۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!عمرہ کے لئے پیسے جمع کرنے کا یہ طریقہ شرعا درست نہیں ہے ،کیونکہ اس میں غرر (دھوکہ) ہے اور قرعہ اندازی سے کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ اس کی باری کب آئے گی اور ممکن ہے تب تک وہ اس فیکٹری سے ہی چھوڑ جائے،نیز جو وہ پیسے حاصل کر رہا ہے وہ اس کے اپنے نہیں ہیں ،بلکہ اس میں زیادہ تر حصہ دیگر لوگوں کا شامل ہے،مجھے یہ شکل بولی والی کمیٹی کی طرح ہی لگ رہی ہے ،جس میں لوگوں کو موٹر سائکلیں وغیرہ دی جاتی ہیں،جبکہ یہاں عمرہ کا ٹکٹ رکھ دیا گیا ہے۔ نیز یاد رہے کہ عمرہ ایک مالی عبادت جو انسان کی اپنی مالی استطاعت پر واجب ہوتی ہے،اگر کسی کے پاس استطاعت ہے تو اس پر واجب ہے ورنہ نہیں ہے،اس میں لوگوں کے پیسوں سے عمرہ کرنے سے ثواب بھی ان کو ہی ملے گا۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |