اگر انسا ن وضوء کر ے اور اس کے ہا تھ میں زخم ہو جسے پا نی نہیں لگنے دینا اور وہ اس کے عوض تیمم کر تا ہے لیکن ایک دفعہ وہ بھول گیا اور اس نے تیمم کے بغیر نما ز شروع کر لی اور اسے اس وقت یاد آیا جب وہ نما ز میں تھا تو اس نے نماز قطع کئے بغیر ہی تیمم کر لیا اور نماز کو جا ری رکھا تو اس نماز کا کیا حکم ہے ؟ کیا یہ نما ز با طل ہے یا صحیح ہے ؟
اگر وضو ء کے مقا ما ت میں سے کسی جگہ زخم ہو کہ اسے دھو نا یا اس پر مسح کر نا ممکن نہ ہو کہ اس سے زخم کے بڑ ھ جا نے یا شفا یا بی کے مؤ خر ہو نے کا اندیشہ ہو تو اس شخص کے لئے یہ وا جب ہے کہ وہ تیمم کر لے جو شخص زخم کی جگہ کو چھو ڑ کر وضو ء کر لے اور نماز شروع کر لے اور دوران نماز یا د کر لے کہ اس نے زخم کی جگہ کے بدلے تیمم نہیں کیا تو وہ تیمم کر لے اور نماز کو دوبا رہ شروع کر لے کیو نکہ زخم کے تیمم کے بغیر اس نے جو نما ز پڑ ھی ہے وہ صحیح نہیں ہے اس کی تکبیر تحریمہ بھی صحیح نہ ہو گی یعنی نما ز شروع کر نا ہی صحیح نہ ہو گا کیو نکہ طہارت صحت نما ز کی شرطو ں میں سے ایک شرط ہے اور وضو ء کے مقاما ت میں سے کسی مقا م یا اس مقا م کے کسی حصہ کو تر ک کر دینے سے وضوء صحیح نہ ہو گا ۔
"نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے پا ؤ ں میں ایک درہم کے برا بر جگہ خشک ہے جسے پا نی نہیں پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ دوبا رہ وضوء کر ے ؛"
یہ شخص جس کے با ر ے میں سوال کیا گیا ہے اس کے لئے اگر غسل اور مسح میں دشوا ری اور معذوری ہو تو اس کے لئے وا جب ہے کہ وہ اس کے بد ل یعنی تیمم کو اختیا ر کر ے حسب ذیل ارشا د با ر ی تعا لیٰ کے عموم کا یہی تقا ضا ہے ۔
اور اگر تم بیما ر ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کو ئی بیت الخلا ء سے ہو کر آیا ہو تم نے عو رتو ں سے ہم بستر ی کی ہو اور تمہیں پا نی نہ ملے تو پا ک مٹی لو اور منہ اور ہا تھو ں کا مسح (کر کے تیمم ) کر لو ۔"
زخم والے صحا بی کے قصہ سے بھی یہی معلو م ہو تا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روا یت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :
"اسے چا ہئے تھا کہ اپنے جسم کو دھو لیتا اور اور سر میں جہا ں زخم تھا اسے چھو ڑ دیتا ۔"
اور حضرت جا بر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :
"اسے تیمم کر نا ہی کا فی تھا ۔"
اگر اس شخص نے جس کے با ر ے میں سوا ل کیا گیا ہے نما ز کو نہیں دوہرا یا تو اسے دوہرا نا چا ہئے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب