سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نیند سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے

  • 10114
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1029

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے دیکھا ہے کہ بعض لو گ ظہر عصر سے پہلے بیت الحرام میں سو جا تے ہیں پھر جب انہیں  نما ز کے لئے  بیدا ر کر نے والا آتا ہے تو وہ وہ وضو ء کئے بغیر نما ز کے لئے کھڑے ہو جا تے ہیں بعض عورتیں بھی اسی طرح کر تی ہیں براہ کر م  مطلع  فر ما ئیے کہ اس کا کیا حکم ہے ؟ اللہ تعا لیٰ آپ کو جز ائے خیر سے نوا زئے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نیند اگر اس قدر گہری ہو  کہ اس سے شعور زائل ہو جا ئے تو اس سے وضوء ٹو ٹ جا تا ہے کیو نکہ صحا بی جلیل حضرت صفوا ن بن عسا ل مرادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے کہ:

(امرنا رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا كنا مسافرين ان لا ننزع خفافنا ثلاثةايام وليا ليهن الا من جنابة ولكن من غائط وبول ونوم)(سنن نسائی )

''رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے  کہ جب ہم مسا فر ہوں تو بو ل و براز  اور نیند  کی وجہ سے تین  دن اور تین راتو ں  تک اپنے مو زوں کو نہ اتا ریں ہا ں حا لت  جنا بت ہو تو پھر اتار نا ہو گا ۔"

 اسی طرح حضرت معا ویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(العين وكاء السه فاذا فامت العينان اسطلق الوكاء) (مسند احمد)

''آنکھ شرم گاہ كاتسمہ ہے لہذا جب آنکھیں سو جا تی ہیں تو یہ تسمہ ڈھیلا پڑ ھ جا تا ہے ''

 اس سے معلو م ہو کہ جو مرد اور عورتیں مسجد حرا م میں یا کسی دوسری  جگہ سوئیں ان کی طہا رت ختم ہو جا تی ہے لہذا انہیں وضوء کر نا چا ہئے اگر کسی نے وضوء کے بغیر  نماز پڑھ لی تو اس کی نما ز صحیح نہیں ہو گی شرعی وضوء یہ ہے کہ کلی اور نا ک کی صفا ئی کے ساتھ منہ دھو یا جا ئے کہنیوں تک ہا تھوں کو دھویا جا ئے کا نو ں سمیت سر کا مسح کیا جا ئے اور دونوں ٹخنوں سمیت دونوں پا ؤں کو دھویا جا ئے نیند ہو ا کے خروج شرم گا ہ کو لگنے  اور اونٹ کا گو شت کھا نے کی صورت میں استجا ء کر نے کی ضرورت نہیں ہو تی ۔وضوء سے پہلے استجا ء یا ڈھیلوں کا استعمال خا ص طور پر بول وبراز یا ان کے ہم معنی حا لتوں میں واجب ہو تا ہے اونگھ سے وضوء نہیں ٹوٹتا کیو نکہ اس سے شعور ختم نہیں ہو تا اور اسی سے اس باب میں وارد مختلف  احادیث  میں  تطبیق بھی ہو جا تی ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1ص281

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ