کیا زخموں وغیرہ کی صفا ئی کے لئے ان عطریا ت و خوشبویا ت کا ظاہری استعمال جا ئز ہے جن میں الکحل کی آمیزش ہو ؟
اس سوال کے جواب سے پہلے دو با تو ں کی وضا حت ضروری ہے۔
اولاً: کیا شرا ب نا پا ک ہے یا نہیں ؟اس میں اہل علم کا اختلا ف ہے اکثر کی رائے یہ ہے کہ شرا ب حسی طور پر پر نجس ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر یہ کپڑے یا جسم کو لگ جا ئے تو اسے دھو کر پا ک کر نا واجب ہے جب کہ بعض اہل علم کا یہ کہنا ہے کہ شرا ب حسی طور پر نجس نہیں ہے کہ نجا ست کا حسی ہو نا ایک شرعی حکم ہے جسے ثا بت کر نے کے لئےدلیل کی ضرورت ہے اور یہا ں کو ئی دلیل موجو د نہیں لہذا جب اس شرعی دلیل سے شراب کا نا پا ک ہو نا ثا بت نہیں تو معلوم ہو ا کہ یہ پا ک ہے "کو ئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ شرا ب کے نا پا ک ہو نے کی دلیل تو خود کتا ب اللہ تعالیٰ کی یہ آیت کر یمہ ہے:
"اے ایما ن والو ں!شرا ب اور جوا ء اور بت اور پانسے (یہ سب ) ناپاک کا م اعما ل شیطان سے ہیں سو ان سے بچتے رہنا تا کہ نجا ت پاؤ ۔" اور رجس بمعنی نجس ہے اور اس کی دلیل حسب ذیل ارشاد با ر ی ہے :
"کہو کہ جو احکا م مجھ پر نا زل ہو ئے ہیں میں ان میں کو ئی چیز جسے کھا نے والا کھا ئے حرا م نہیں پا تا بجز اس کے کہ وہ مرا ہو ا جا نور ہو یا بہتا ہو لہو یا سور کا گو شت کہ یہ سب نا پا ک ہیں یا کو ئی گناہ کی چیز ہو کہ اس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نا م لیا گیا ہو ۔" اسآیت سے معلو م ہو ا کہ مردار اور خنزیر کا گو شت اور دم مسفوح رجس یعنی نجس ہیں رجس کے یہا ں نجس ہو نے کی دلیل یہ حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردہ جانوروں کی کھالوں کے متعلق فر ما یا ہے کہ " پا نی انہیں پا ک کر دیتا ہے (يطهرها)"یعنی اسے پا ک کر دیتا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ پہلے نا پا ک تھیں جیسا کہ اہل علم کے ہا ں یہ با ت معلوم ہے لیکن اس با ت کا جوا ب یہ ہے کہ یہا ں رجس سے مراد جس عملی ہے رجس حسی نہیں اور اس کی دلیل یہ الفا ظ ہیں :
"(یہ سب ) نا پا ک کا م اعمال شیطا ن سے ہیں ۔"اور دوسری دلیل یہ ہے کہ جواہ بت اور پا نسے حسی طور پر نجس نہیں ہیں اور چا روں چیزوں کے با ر ے میں خبر ہے اور وہ ہیں (1) شرا ب (2) جوا ء (3) بت اور(4)پانسے تو جب خبر ان چا روں کے متعلق ہے تو حکم بھی ان سب کے متعلق مسا وی ہو گا ۔ جو لو گ یہ کہتے ہیں کہ شرا ب میں حسی طور پر نجس نہیں ہے ان کے پا س ایک دوسری دلیل سنت سے یہ بھی ہے کہ جب شرا ب کی حرمت کا حکم نا زل ہو ا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرا ب کے برتنوں کے دھو نے کا حکم نہیں دیا ۔حضرات صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنہم اجمعین نے بھی حر مت کے حکم کے نا زل ہو نے کے بعد شرا ب کو با زاروں میں بہا دیا ۔اگر شرا ب نجس ہو تی تو وہ اسے با زا روں میں نہ بہا تے کیو نکہ اس سے بازاروں میں چلنے والو ں کے نا پاک ہو نے کا اندیشہ تھا ،
ثانیاً: جب یہ با ت واضح ہو گئی کہ شرا ب حسی طور پر نجس نہیں ہے اور میرے نزدیک بھی یہی قول راجح ہے تو معلو م ہو کے الکحل بھی حسی طور پر نجس نہیں ہے بلکہ اس کی نجا ست معنوی ہے کیو نکہ اس الکحل سے سکر (نشہ ) پیدا ہو وہ شرا ب ہے اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ(كل مسكر خمر)ہر نشہ آور چیز شرا ب ہے " (1) اور جب یہ شرا ب ہے تو اکل و شرا ب میں اس کا استعما ل کہ اسے کسی کھا نے پینے کی چیز میں لا یا جا ئے کہ اس کی تا ثیر اس میں ظاہر ہو تو حرا م ہے اور اس کی حرمت نص اور اجما ع سے ثا بت ہے دیگر امو ر مثلاً جرا ثیم کے خا تمہ وغیرہ کے لئے اس کا استعما ل تو یہ مسئلہ محل نظر ہےاور اجتنا ب ہی میں زیا دہ احتیا ط ہے لیکن میں اسے حرا م نہیں کہہ سکتا اور میں سوائے زخموں کو مند مل کر نے وغیرہ کی ضرورت کے خود استعما ل بھی نہیں کر تا ۔
(1)صحیح مسلم کتا ب الا شربۃ با ب بیا ن ان کل خمر حرا م ح : (2002)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب