پیشہ وکالت میں انسان بسا اوقات ایک خرابی کو روکنے اور اسے دور کرنے کے سلسلے میں مدد کرتا ہے کیونکہ وکیل کا مقصد ایک بے گناہ شخص کو سزا سے بچانا ہوتا ہے تو کیا وکیل کی کمائی حرام ہے؟ کیا بطور وکیل کام کرنے کے سلسلے میں اسلام نے کچھ شروط عائد کی ہیں؟
محاماۃ(بمعنی پیشۂ وکالت) مادۂ حمایت سے (مفاعلۃ کا صیغہ) ہے اور حمایت اگر شر کے لئے اور اس کی طرف سے دفاع کے لئے ہو تو بلا شبہ یہ حرام ہے، کیونکہ یہ اس امر کا ارتکاب ہے، جس اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں منع فرمایا ہے:
’’اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کیا کرو۔‘‘
اور اگر وکالت خیر کی حمایت اور اس کے دفاع کے لئے ہو تو یہ قابل ستائش ہے اور اس کا حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ میں حکم دیا گیا ہے۔
’’اور نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔‘‘
لہٰذا جس نے اپنے آپ کو پیشہ وکالت کے لئے تیار کیا ہو، اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ جس کیس کو لے رہا ہو اس کا مطالعہ کرے اور خوب جائزہ لے۔ اگر مؤکل کا موقف حق پر مبنی ہو تو کیس کو لے لے، حق کی حمایت اور حقدار کی مدد کرے اور اگر اس کا موقف مبنی برحق نہ ہو تو پھر بھی وکالت کرے لیکن اس مؤکل کے خلاف اور وہ اس طرح کہ اسے سمجھائے کہ وہ حرام کا ارتکاب نہ کرے، کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:۔
’’اپنے بھائی کی مدد کیا کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔‘‘
صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مظلوم کی مدد کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپﷺ نے فرمایا:
’’ظالم کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم سے منع کرو۔‘‘
وکیل کو اگر یہ معلوم ہو کہ مؤکل کا یہ دعویٰ مبنی برحق نہیں ہے تو اس پر واجب ہے کہ اسے سمجھائے اور اس دعویٰ کے بارے میں اسے اللہ تعالیٰ کے خوف سے ڈرائے اور اسے بتائے کہ اس کا یہ دعویٰ باطل ہے تاکہ وہ اسے چھوڑ دے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب