سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(123) مردوں کے لیے سونا حرام کیوں ہے؟

  • 1008
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1538

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مردوں کے لیے سونے کے حرام ہونے کی کیا حکمت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

سوال کرنے والے کو اور اس شخص کو بھی جو اس جواب سے مطلع ہو، خوب معلوم ہونا چاہیے کہ ہر مومن کے لیے احکام شریعت میں علت یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَما كانَ لِمُؤمِنٍ وَلا مُؤمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَرَسولُهُ أَمرًا أَن يَكونَ لَهُمُ الخِيَرَةُ مِن أَمرِهِم...﴿٣٦﴾... سورة الأحزاب

’’اور کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی امر کا فیصلہ کر دیں تو وہ اس میں اپنا بھی کچھ اختیار رکھیں۔‘‘

جو شخص بھی ہم سے کسی ایسی چیز کے وجوب یا حرمت کے بارے میں پوچھے گا، جس کے حکم کی دلیل کتاب وسنت میں موجود ہوگی، تو اس کی علت بس یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے اور یہ علت ہر مومن کے لیے کافی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے جب یہ پوچھا گیا کہ اس کا سبب کیا ہے کہ حائضہ عورت روزے کی تو قضا کرتی ہے لیکن نماز کی قضا نہیں کرتی؟ توانہوں نے جواب میں فرمایا:

«کان يصيبنا ذلک فنومر بقضاء الصوم ولا نومر بقضاء الصلاة»(صحیح البخاری، الحیض، باب لا تقضی الحائض الصلاۃ، ح:۳۲۱ وصحیح مسلم، الحیض، باب وجوب قضاء الصوم… ح: ۳۳۵ (۶۹) واللفظ له)

’’ہمیں جب یہ حالت پیش آتی تو ہمیں روزے کی قضا کا حکم دیا جاتا تھا لیکن نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔‘‘

کتاب اللہ یا سنت رسول سے نص کامل کی جانکاری ہر مومن کے لیے علت موجبہ ہے لیکن اس کے باوجود اس بات میں بھی کوئی حرج نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کے احکام میں علت وحکمت کو تلاش کرے کیونکہ اس سے اطمینان قلب میں اضافہ ہوتاہے اورپھر جب احکام کو علل کے ساتھ ملایا جائے ۔ تو اس سے اسلامی شریعت کی سر بلندی بھی واضح ہوکرسامنے آتی ہے اور جب اس منصوص حکم کی علت کسی دوسرے غیر منصوص امر میں بھی موجود ہوگی تو اسے اس پر قیاس کرنا ممکن ہوگا گویا کسی شرعی حکم کی علت وحکمت کے معلوم ہونے کے یہ تین فوائد ہیں۔

اس تمہید کے بعد ہم اس سوال کے جواب میں عرض کریں گے کہ یہ ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مردوں کے لیے سونے کے استعمال کو حرام قرار دیا ہے، البتہ اس کا استعمال عورتوں کے لیے جائز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سونا سب سے مہنگی چیز ہے، جسے انسان زینت کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ سونا زینت بھی ہے اور زیور بھی اور یہ چیزیں مرد کے لیے مقصود نہیں ہواکرتیں۔ انسان سونے کے بغیر نہ کسی کے لیے مکمل ہو سکتا ہے اور نہ اس کے بغیر وہ کسی کو مکمل کر سکتا ہے لیکن مرد تو رجولیت کی وجہ سے فی نفسہٖ کامل ہے، اسے اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ اپنے آپ کو کسی دوسرے فرد کے لیے مزین کرے، جس سے اس کی رغبت وابستہ ہو۔ اس کے برعکس عورت ناقص ہے، اسے اپنے حسن وجمال کی تکمیل کی ضرورت ہے اسے ضرورت ہے کہ وہ قیمتی سے قیمتی نفیس ترین زیورات کے ساتھ زیب وزینت اور آرائش وزیبائش کا اہتمام کرے تاکہ اس طرح اس کے اور اس کے شوہر کے مابین تعلقات خوشگواررہیں ، اس   وجہ سے عورت کے لیے اس بات کو جائز قرار دیا گیا کہ وہ سونے کے زیورات استعمال کرے جبکہ مرد کے لیے ان کا استعمال ناجائز قرار دے دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کے بارے میں فرمایا ہے:

﴿أَوَمَن يُنَشَّؤُا۟ فِى الحِليَةِ وَهُوَ فِى الخِصامِ غَيرُ مُبينٍ﴿١٨﴾... سورة الزخرف

’’کیا وہ جو زیور میں پرورش پائے اور جھگڑے کے وقت بات واضح نہ کر سکے (اللہ کی بیٹی ہو سکتی ہے؟)‘‘

اس سے بھی شریعت کا یہ حکم واضح ہو جاتا ہے کہ مردوں کے لیے سونا حرام ہے۔ اس مناسبت سے یہاں میں ان مردوں کی خدمت میں یہ عرض کروں گا جو سونے کے زیور پہننے کی آزمائش میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے آپ کو عورتوں کی صف میں شامل کر لیا ہے اور اپنے ہاتھوں میں انہوں نے جو زیور پہن رکھا ہے، یہ زیور نہیں بلکہ درحقیقت جہنم کی آگ کا انگارا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ ثابت ہے، اس لئے انہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے آگے توبہ کرنی چاہیے۔ اگر وہ کوئی زیور استعمال کرنا ہی چاہتے ہیں تو شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے چاندی کا زیور استعمال کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح سونے کے سوا دیگر دھاتوں سے بنی ہوئی انگوٹھیوں کے استعمال میں بھی کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ یہ معاملہ حد اسراف تک نہ پہنچے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ193

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ