ایک آدمی کچھ لوگوں سے مذاق کر رہا تھا اور اس کے پاس اس کا ایک بیٹا بھی تھا جس کی عمر ایک سال تھی۔ اس نے مذاق ہی مذاق میں یہ کہہ دیا کہ اگر یہ بیٹا زندہ رہا تو میں اہل محلہ کی دعوت کروں گا۔ اب وہ بیٹا بڑا ہو کر مرد بن چکا ہے مگر اس شخص نے کچھ نہیں کیا۔ اب وہ پوچھتا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہئے؟ اس کے محلہ کے لوگ اس وقت بہت کم تھے اور اب ان میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے؟
اگر سائل نے یہ بات بطور نذر کہی تھی تو اس پر واجب ہے کہ اپنی نذر کو پورا کرے اور اپنے پڑوسیوں کو کھانا کھلا دے جن کی تعداد اس وقت کے اہل محلہ سے کم نہیں ہونی چاہئے۔ لوگوں کو کھانا کھلانا بھی تقرب الٰہی کے حصول کا ایک ذریعہ ہے اور نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے:
’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی نذر مانے تو اسے اس کی اطاعت کرنی چاہئے‘‘۔
اور اللہ تعالیٰ نے بھی نذر پوری کرنے والوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’یہ لوگ نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی پھیل رہی ہوگی‘‘۔
اسی طرح
’’رسول اللہﷺ کے عہد میں ایک شخص نے یہ نذر مانی تھی کہ وہ مقام بوانہ میں ایک اونٹ نحر کرے گا۔ اس نے نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: کیا اس جگہ زمانہ جاہلیت کے کسی بت کی عبادت تو نہیں ہوتی؟ عرض کیا جی نہیں! آپ نے فرمایا: کیا اس جگہ زمانہ جاہلیت کا کوئی میلہ تو منعقد نہیں ہوتا؟ عرض کیا جی نہیں! تو آپ نے فرمایا: اپنی نذر کو پورا کرو‘ اس نذرکو پورا نہیں کرنا چاہئے جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو یا جس کا ابن آدم مالک ہی نہ ہو‘‘۔
اگر یہ بات بطور نذر نہیں بلکہ کھانا کھلانے کا ایک وعدہ تھا تو پھر بھی وعدے کو پورا کرنا چاہئے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب