سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(685) قبروں کے پاس جانور ذبح کرنے کی نذر

  • 10070
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1394

سوال

(685) قبروں کے پاس جانور ذبح کرنے کی نذر
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نے یہ نذر مانی تھی کہ وہ قبروں کے پاس ایک مینڈھا ذبح کرے گا تو کیا اس نذر کا پورا کرنا واجب ہے یا وہ کسی بھی جگہ مینڈھا ذبح کر سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قبروں کے پاس جانور ذبح کرنا بدعت اور شرک اکبر کا ذریعہ ہے لہٰذا جو شخص قبروں کے پاس جانور ذبح کرنے کی نذر مانے اس کے لئے اپنی اس نذر کو پورا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ نذر معصیت ہے اور نذر معصیت کو پورا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:

«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ۔ ( صحیح بخاری)

’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی نذر مانے تو اسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنی چاہئے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی نذر مانے تو اسے اس کی نافرمانی نہیں کرنی چاہئے‘‘۔

نیز امام ابو دائود نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ثابت بن ضحاکؓ سے یہ روایت کیا ہے:

«نَذَرَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَةَ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ كَانَ فِيهَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاهِلِيَّةِ يُعْبَدُ؟» قَالُوا: لَا، قَالَ: «هَلْ كَانَ فِيهَا عِيدٌ مِنْ أَعْيَادِهِمْ؟»، قَالُوا: لَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوْفِ بِنَذْرِكَ، فَإِنَّهُ لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ ۔ ( سنن ابی داؤد)

’’ایک آدمی نے نذر مانی کہ وہ مقام بوانہ میں ایک اونٹ نحر کرے گا۔ اس نے نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:’’کیا اس جگہ زمانہ جاہلیت کے کسی بت کی عبادت تو نہیں ہوتی؟ عرض کیا گیا! جی نہیں! تو آپ نے فرمایا: ’’کیا اس جگہ زمانہ جاہلیت کا کوئی میلہ تو منعقد نہیں ہوتا؟ عرض کیا گیا جی نہیں تو آپ نے فرمایا: اپنی نذر کو پورا کرو۔ اس نذر کو پورا نہیں کرنا چاہئے جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو یا جس کا ابن آدم مالک ہی نہ ہو‘‘۔

اگر یہ ذبیحہ صاحب قبر کیلئے ہو تو یہ شرک اکبر ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿قُل إِنَّ صَلاتى وَنُسُكى وَمَحياىَ وَمَماتى لِلَّهِ رَ‌بِّ العـٰلَمينَ ﴿١٦٢ لا شَر‌يكَ لَهُ ۖ وَبِذ‌ٰلِكَ أُمِر‌تُ وَأَنا۠ أَوَّلُ المُسلِمينَ ﴿١٦٣﴾... سورة الانعام

’’اے پیغمبر! کہہ دیجئے کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی بات کا حکم ملا ہے اور میں سب سے اول فرماں بردار ہوں‘‘۔

اور صحیح حدیث میں ہے:

«لعن الله من ذبح لغيرالله-( صحیح بخاری)

اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو غیر اللہ کیلئے ذبح کرے‘‘۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص548

محدث فتویٰ

تبصرے