سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(678) مشروط نذر

  • 10063
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1074

سوال

(678) مشروط نذر
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے اپنے بیمار بھائی کی وجہ سے ایک دن کے روزے کی نذر مانی تھی مگر حالات ایسے رہے کہ میں روزہ نہ رکھ سکا اور یہ بھائی بھی فوت ہو گیا تو کیا اب اس کی وفات کے بعد بھی روزہ رکھ سکتا ہوں؟ ایک روزہ رکھوں یا دو روزے؟ میں نے دو دفعہ اپنے اس فوت شدہ بھائی کی قبر کی بھی زیارت کی ہے۔ کیا اسلام میں یہ جائز ہے؟ اور کیا یہ حقیقت ہے کہ زندہ لوگ جب میت کی قبر کی زیارت کریں تو فوت شدہ شخص کو اس کا علم ہو جاتاہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر آپ نے مشروط نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے بھائی کو شفا عطا فرمائی تو آپ ایک روزہ رکھیں گے اور وہ شفا سے قبل ہی فوت ہو گیا تو پھر آپ کیلئے یہ روزہ رکھنا لازم نہیں ہے چنانچہ سوال سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کی وفات صحت یاب ہونے سے پہلے ہو گئی۔

آپ کیلئے یہ جائز ہے کہ اپنے فوت شدہ بھائی کی قبر کی زیارت کیلئے ایک یا دو یا اس سے بھی زیادہ دفعہ جائیں لیکن اس کے یہ معنی بھی نہیں کہ آپ ہمیشہ قبر کی زیارت کرتے رہیں کیونکہ ایسا کرنا مشروع نہیں ہے۔ ہاں یہ جائز ہے کہ کبھی کبھی زیارت کے لئے جائیں اور دعا کریں جہاں تک زیارت کرنے والے کو پہچاننے کا تعلق ہے تو نبی اکرمﷺ نے یہ فرمایا ہے:

«مَا مِنْ أَحَدٍ مَرَّ بِقَبْرِ أَخِيهِ الْمُؤْمِنِ كَانَ يَعْرِفُهُ فِي الدُّنْيَا فَسَلَّمَ عَلَيْهِ إِلَّا عَرَفَهُ وَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ ۔ ( الاستذکار)

’’جب بھی کوئی شخص اپنے مومن بھائی کی قبر کے پاس سے گزرتا ہے جسے وہ دنیا میں جانتا تھا اور اسے سلام کہتا ہے تو وہ (میت) سے پہچان کر اس کے سلام کا جواب دیتا ہے‘‘۔

اس حدیث کو عبدالبرؒ نے صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ حافظ ابن قیمؒ نے ان کے حوالہ سے ’’کتاب الروح‘ ‘ میں درج کیا اور ان سے اتفاق کیا ہے۔(ابن عبدالبرؓ نے یہ روایت ذکر کرنے کے بعد سکوت اختیار کیا ہے۔ اسے صحیح قرار نہیں دیا اور ابن عبدالبرؒ کا یہ سکوت روایت کے صحیح ہونے کی علامت قطعاً نہیں۔ العلل المتاہیۃ کی تعلیق میں شیخ ارشادالحق اثری حفظہ اللہ نے اس روایت کی سند پر مختصر اور جامع نقد کرنے کے بعد یہ فیصلہ دیا ہے کہ یہ روایت قابل حجت نہیں ہے۔ (تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو: العلل المتاہیۃ بتحقیق الاسناد ارشادالحق الاثری ۲/۰۳۴‘۹۲۴)

اس بات کا جاننا بھی ضروری ہے کہ زیارت فوت شدگان کی مصلحت اور زندہ انسانوں کی عبرت کیلئے ہونی چاہئے اور اس سے یہ مقصود نہیں ہونا چاہئے کہ ان مردوں کو پکارا جائے کیونکہ غیر اللہ کو پکارنا ایسا شرک اکبر ہے جس سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور پھر قبروں کے پاس دعا کی کوشش نہیں کرنی چاہئے کیونکہ مسجدوں میں دعا کرنا افضل ہے اور دعا کے ارادے سے قبروں کے پاس جانا بدعت ہے بلکہ یہ کبھی کبھی وسیلۂ شرک بھی بن جاتا ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص542

محدث فتویٰ

تبصرے