سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(671) نذر کے بارے میں ایک جماعت کا مؤقف

  • 10056
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 994

سوال

(671) نذر کے بارے میں ایک جماعت کا مؤقف
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نذر کے بارے میں ایک جماعت کا تو یہ کہنا ہے کہ نذر صرف اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ماننی چاہئے کیونکہ غیر اللہ کے لئے نذر ماننا کفرو شرک ہے کیونکہ نذر عبادت ہے اور غیر اللہ کی عبادت کفر ہے اور ایک دوسری جماعت کا یہ کہنا ہے کہ غیر اللہ کیلئے نذر عمل صالح اور موجب اجرو ثواب ہے تو اس میں سے کون سی بات حق ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نذر عبادت کی قسموں میں سے ایک قسم ہے اور یہ صرف اللہ وحدہ کا حق ہے لہٰذا غیر اللہ کیلئے نذر جائز نہیں۔ جو شخص غیر اللہ کیلئے نذر مانتا ہے وہ گویا عبادت کی اس قسم کو غیر اللہ کے لئے ادا کرتا ہے اور جو عبادت کی کسی بھی قسم کو خواہ وہ نذر ہو یا زبح یا کچھ اور غیر اللہ کیلئے ادا کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہراتا ہے اور وہ اس ارشاد باری تعالیٰ کے عموم میں داخل ہے۔

﴿إِنَّهُ مَن يُشرِ‌ك بِاللَّهِ فَقَد حَرَّ‌مَ اللَّهُ عَلَيهِ الجَنَّةَ وَمَأوىٰهُ النّارُ‌ ۖ وَما لِلظّـٰلِمينَ مِن أَنصارٍ‌ ﴿٧٢﴾... سورة المائدة

’’جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا‘ اللہ اس پر بہشت کو حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں‘‘۔

جو عاقل بالغ مسلمان یہ عقیدہ رکھے کہ قبر میں مدفون لوگوں کیلئے نذر ذبح جائز ہے تو اس کا یہ عقیدہ شرک اکبر ہے جو (آدمی) کو ملت اسلامیہ سے خارج کر دیتا ہے اس عقیدہ کے حامل شخص سے تین دن تک نہایت سختی کے ساتھ توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا اگر توبہ کر لے تو بہتر ورنہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔

ایسے شخص کے بیٹے کا اپنے باپ کے مال کو مستقبل بنانے کیلئے استعمال کرنا یا اس کی وفات کے بعد وارث بننا اسی مسئلہ پر موقوف ہے اگر اس کا باپ اسی عقیدہ پر فوت ہوا ہو اور یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے توبہ کی ہے تو وہ اس کا وارث نہیں ہوگا کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:

«لاَ يَرِثُ المُسْلِمُ الكَافِرَ وَلاَ الكَافِرُ المُسْلِمَ ۔ ( صحیح بخاری)

’’مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوتا‘‘

اس کا بیٹا اس کی زندگی میں اس کے مال کو جس قدر اس کا جی چاہے لے سکتا ہے‘ نیز اس کے لئے بھی بیٹے کے مال کو اس کے علم کے بغیر بھی لینا جائز ہے بشرطیکہ فقیر اور ایسے اسباب سے عاجز ہو جو اسے اس سے بے نیاز کر دینے والے ہوں کیونکہ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ ابو سفیانؓ کی بیوی ہند بنت عتبہؓ نے نبی اکرمﷺ کے پاس یہ شکایت کی کہ ابو سفیان اسے اس قدر خرچ نہیں دیتا جو اس کے اور اس کے بیٹوں (اولاد) کے لئے کافی ہو تو آپ نے فرمایا کہ

«خُذِي مِنْ مَالِهِ بِالْمَعْرُوفِ مَا يَكْفِيكِ وَيَكْفِي بَنِيكِ ۔ ( صحیح مسلم)

’’تو اس کے مال میں سے دستور کے مطابق اس قدر لے لے جو تیرے بیٹوں کیلئے کافی ہو‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ پہلی جماعت کا موقف حق ہے‘ جو یہ کہتی ہے کہ نذر صرف اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہونی چاہئے اور غیر اللہ کے لئے نذر کفرو شرک ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص535

محدث فتویٰ

تبصرے