نذر کے لئے شرعی حکم کیا ہے؟ کیا نذر پوری نہ کرنے کی سزا ہے؟ کیا نذر کی قیمت کو کسی دوسرے رفاہی کام میں خرچ کیا جا سکتا ہے؟
نذر کے بارے میں حکم شریعت یہ ہے کہ یہ مکروہ ہے کیونکہ نبی اکرمﷺ نے اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’یہ کسی خیرو بھلائی کو تو نہیں لاتی البتہ اس کے ذریعہ بخیل کا کچھ مال نکال لیا جاتا ہے‘‘۔
آپﷺ نے یہ اس لیے فرمایا ہے کہ بعض لوگ جب بیمار ہو جاتے یا نقصان اٹھاتے یا کسی تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو وہ یہ نذر مانتے ہیں کہ اگر انہیں شفا حاصل ہو جائے یا نقصان پورا ہو جائے تو وہ صدقہ کریں گے یا جانور ذبح کریں گے یا مال تقسیم کریں گے اور ان کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ جب تک وہ یہ نذر نہ مانیں اللہ تعالیٰ انہیں شفا نہیں دے گا یا یہ نفع نہیں پہنچائے گا تو اس کے بارے میں نبی اکرمﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ نذر اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ قضا و قدر میں تو کوئی تبدیلی نہیں لا سکتی البتہ یہ ضرور ہے کہ نذر ماننے والا بسا اوقات بخیل ہوتا ہے اور وہ نذر مانے بغیر خرچ نہیں کرتا۔
اگر کسی عبادت کی نذر مانی ہو مثلاً نماز یا روزہ یا صدقہ یا اعتکاف کی تو سے پورا کرنا لازم ہے اور اگر نذر کسی معصیت یعنی گناہ کی ہو مثلاً قتل‘ یا زنا یا شراب نوشی کی یا کسی کا مال ظلم سے چھیننے کی تو یہ جائز نہیں اور اس صورت میں کفارہ قسم ادا کر دینا چاہئے اور وہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا…الخ
اگر نذر کا تعلق کھانے‘ پینے‘ پہننے‘ سفر کرنے اور معمول کی بات چیت کرنے وغیرہ کے مباح امور میں سے ہو تو پھر نذر ماننے والے کو اختیار ہے کہ اسے پورا کرے یا کفارہ قسم ادا کر دے۔
اگر اطاعت الٰہی پر مبنی نذر کا تعلق مسکینوں اور محتاجوں پر خرچ کرنے سے ہو مثلاً کھانا کھلانا یا دنبہ وغیرہ ذبح کرنا ہو تو اسے مسکینوں اور محتاجوں ہی پرخرچ کیا جائے او راگر نذر کا تعلق کسی بدنی یا مالی نیک عمل‘ مثلاً جہاد‘ حج اور عمرہ وغیرہ سے ہو تو اسے پورا کرنا لازم (ضروری) ہے اگر نذر ماننے والے نے مصرف کا تعین کر لیا ہو مثلاً یہ کہ اسے مساجد یا کتب یا اس طرح کے دیگر نیک کاموں میں خرچ کرے گا تو پھر اس طرح کے مقرر کردہ مصرف میں تبدیلی جائز نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب