ایک شخص نے بچپن میں جبکہ اس کی عمر پندرہ سال تھی قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسم کھائی لیکن سن رشد کو پہنچنے کے بعد اسے بہت ندامت ہوئی کیونکہ اب اسے یہ معلوم ہو گیا تھا کہ یہ شرعاً حرام ہے تو کیا اس پر گناہ یا کفارہ ہے؟
اس سوال میں دو مسئلے قابل غور ہیں ایک تو یہ ہے قسم میں تاکید پیدا کرنے کی خاطر قرآن مجید پر ہاتھ رکھنا تو اس کی سنت سے چونکہ کوئی دلیل نہیں ہے لہٰذا یہ شرعی حکم نہیں ہے کہ بوقت قسم قرآن مجید پر ہاتھ رکھا جائے۔
دوسرا مسئلہ ہے جان بوجھ کر جھوٹی قسم ھکانے کا تو بلاشبہ یہ ایک بہت بڑا گناہ ہے لہٰذا اس پر واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آگے توبہ کرے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جھوٹی قسم کیلئے حدیث میں جو ’’یمین غموس‘‘ (بمعنی ڈبو دینے والی قسم) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں تو یہ اس لیے کہ جھوٹی قسم گناہ میں اور پھر جہنم کی آگ میں ڈبو دیتی ہے۔ جھوٹی قسم اگر اس نے بالغ ہونے کے بعد کھائی ہے تو یہ شخص گناہگار ہوگا لہٰذا اسے توبہ کرنی چاہئے لیکن اس پر کفارہ لازم نہیں ہے کیونکہ کفارہ تو ان قسموں پر ہوتا ہے جن کا تعلق مستقبل کی اشیاء سے ہو ماضی کی اشیاء میں کفارہ نہیں ہے بلکہ ان کے حوالہ سے تو بات صرف اس قدر ہے کہ انسان گناہگار ہے یا نہیں اور جب انسان کسی ایسی چیز کے بارے میں قسم کھائے جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ یہ جھوٹ ہے تو وہ گناہگار ہوگا اور اگر کسی ایسی چیز کے بارے میں قسم کھائے جس کے بارے میں اسے علم یا ظن غالب ہو کہ وہ سچا ہے تو وہ گناہگار نہیں ہوگا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب