میں ایک نوجوان ہوں‘ میں نے اپنے ماموں کی بیٹی سے شادی کا ارادہ کیا تو میری والدہ نے مجھے بتایا کہ اس نے اس دوشیزہ کو میرے تمام بھائیوں کیلئے حرام قرار دے رکھا ہے لیکن اب میری والدہ اس پر بہت نادم ہے اور میں اسی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بارے میں حکم شریعت کیا ہے؟ کیا میرے لیے اس سے شادی کرنا حلال ہے یا نہیں؟ اس صورت میں کفارہ کیا ہوگا؟
حرام قرار دینے سے کوئی حلال چیز حلال چیز حرام نہیں ہوتی بلکہ یہ بات قسم کے درجہ میں ہوتی ہے۔ نبی اکرمﷺ نے ایک دن فرمایا تھا کہ ’’یہ شہد مجھ پر حرام ہے‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرما دی:
’’آپ اسے کیوں حرام قرار دیتے ہیں جسے اللہ نے آپ کیلئے حلال قرار دیا ہے؟‘‘
اور پھر فرمایا:
’’اللہ نے تم لوگوں کیلئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کر دیا ہے‘‘۔
یعنی تمہارے لیے قسم کا وہ کفارہ بیان فرما دیا ہے جس سے تم اس چیز کو حلال کر لیتے ہو جس کے بارے مین قسم کھا لی ہو یعنی یہ کفارہ اس آیت میں بیان فرمایا ہے:
’’اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے‘‘۔
لہٰذا یہ لڑکی آپ کی ماں کے حرام قرار دینے کی وجہ سے حرام نہیں ہوگی ‘ ہاں البتہ اس کیلئے کفارہ قسم لازم ہوگا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب