ایک شخص کی نئی نئی شادی ہوئی تھی مگر اس نے بھول کر قسم کھا لی کہ میں آئندہ سال یہ خردوں گا ورنہ مجھ پر طلاق اور کیا اگر وہ نہ خریدے تو اس کی بیوی کو طلاق ہو جائے گی؟ نہ خریدنے کی صورت میں اس پر کیا لازم ہوگا؟ یاد رہے کہ طلاق کے ساتھ قسم کھانا اس کی ہر گز عادت نہ تھی لہٰذا اس نے اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار بھی کیا ہے؟
اس طرح کے کلام کا حکم شوہر کی نیت کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے ۔ اگر راس کا مقصد اپنے آپ کو اس خریداری پر برانگیختہ کرتا تھا اور بیوی سے علیحدگی اختیار کرنا مقصود نہ تھا تو اگر وہ چیز نہ بھی خریدے جس کا اس نے طلاق کے ساتھ ذکر کیا تھا تو اہل علم کے صحیح ترین قول کے مطابق یہ طلا ق قسم کے حکم میں ہوگی لہٰذا اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا اور وہ ہے دس مسکینوں کو کھانا کھلانا کہ ہر مسکین کو نصف صاع کھجور وغیرہ یا جو بھی شہر کی خوراک ہو دیا جائے۔ اس کی مقدار تقریباً ڈیڑھ کلو ہے۔ اگر دس مسکینوں کو دوپہر یا شام کا کھانا کھلا دے یا انہیں ایسے کپڑے دے دے جو نماز کیلئے کافی ہوں تو یہ بھی جائز ہے اور اگر اس کی نیت نہ خریدنے کی صورت میں طلاق ہے تو اس سے طلاق واقع ہو جائے گی۔ مومن کوچاہئے کہ اس طرح کے حالات میں لفظ طلاق کے استعمال سے اجتناب کرے کیونکہ بہت سے اہل علم اس بات کے بھی قائل ہیں کہ اس صورت میں مطلقاً طلاق واقع ہو جاتی ہے اور نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:
’’جو شخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین و عزت کو بچا لیا‘‘۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب