ہمارے ہاں لوگوں میں حلف اور حرام کے ساتھ طلاق دینے کا بہت رواج ہے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
طلاق کے ساتھ مکروہ ہے ایسا نہیں کرنا چاہئے کیونکہ بعض اہل علم کے نزدیک یہ اہل کے فراق کا وسیلہ ہے (یعنی بیوی سے علیحدگی اور جدائی کا ذریعہ ہے) اور پھر اس لیے بھی کہ طلاق اللہ تعالیٰ کے ہاں حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے لہٰذا مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی زبان کی حفاظت کرے اور ضرورت کے بغیر طلاق کا لفظ استعمال نہ کرے اور طلاق اس وقت دے جب وہ غصے کی حالت میں نہ ہو اور جب وہ اپنے دوستوں یا مہمانوں کو اپنے ہاں آنے یا کھانے کی دعوت وغیرہ کے سلسلہ میں تاکید کرنا چاہے تو افضل یہ ہے کہ صرف اللہ کے نام کی قسم پر اکتفاء کرے۔ اگر غصے کی حالت میں ہو تو اسے اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم پڑھنا چاہئے اور اپنی زبان اور دیگر اعضاء کی ایسے امور سے حفاظت کرنی چاہئے جو زیب نہ دیتے ہوں۔ کسی حلال چیز کو حرام قرار دینا جائز نہیں خواہ وہ قسم کے صیغہ سے ہو یا کسی اور صیغہ سے سے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’اے پیغمبر! جو چیز اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے‘ تم اس کو کیوں حرام ٹھہراتے ہو؟‘‘
اس سلسلہ میں دیگر دلائل بھی معروف ہیں اور پھر کسی مسلمان کو یہ بات زیب ہی نہیں دیتی کہ وہ کسی بھی ایسی چیز کو حرام قرار دے جسے اللہ تعالیٰ نے حلال ٹھہرایا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب