کیا ’’اللہ کی قسم‘‘کے الفاظ کو حلف شمار کیا جائے گا؟ اسی طرح جب ایک عورت دوسری سے یہ کہے کہ اگر تو ایسا کرے یا یہ پکڑے ’’تو یہ مجھ پر حرام ہے‘‘ کیا یہ الفاظ قسم ہیں؟ قسم مغلظ کیا ہوتی ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔ بارک اللہ فیکم۔
جب کوئی انسان یہ کہے کہ: ’’اللہ کی قسم‘‘ یا اس کے مشابہ کوئی اور الفاظ استعمال کرے تو یہ قسم شمار ہوں گے اور ان کیلئے بھی وہی حکم گا جو ’’واللہ‘‘ باللہ ‘‘ اور ’’تاللہ‘‘ جیسے قسم کے صریح الفاظ کے لئے ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان جب کسی چیز کو اپنے لیے حرام قرار دے لے تو یہ بھی قسم کے حکم میں ہوتا ہے‘ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اے نبی! جو چیز اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے تم اسے کیوں حرام ٹھہراتے ہو؟ کیا اس سے اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اللہ نے تمہارے لیے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کر دیا ہے‘‘۔
اور فرمایا:
’’مومنو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں‘ ان کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو یقینا اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا اور جو حلال طیب روزی اللہ نے تم کو دی ہے اسے کھائو اور اللہ سے جس پر ایمان رکھتے ہو ڈرتے رہو۔ اللہ تمہاری بے ارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن پختہ قسموں پر (جن کیخلاف کرو گے) مواخذہ کرے گا‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے جن پاک چیزوں کو ہمارے لیے حلال قرار دیا ہے‘ انہیں حرام قرار دینے کی ممانعت کے بعد اللہ تعالیٰ نے کفارہ کا ذکر فرمایا ہے‘ لہٰذا اگر کوئی شخص کسی چیز کو حرام قرار دے لے تو وہ ایسے ہے جیسے قسم کھا کر کہے کہ میں یہ کام نہیں کروں گا مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ’’میرے لیے اس کے گھر میں داخل ہونا حرام ہے‘‘ تو یہ ایسے ہے جیسے یہ کہے کہ ’’اللہ کی قسم میں اس کے گھر میں داخل نہیں ہوں گا‘‘ اور اگر یہ کہے کہ اس چیز کا بیچنا میرے لیے حرام ہے‘‘ تو یہ ایسے ہی ہے جیسے یہ کہے کہ ’’اللہ کی قسم میں یہ چیز نہیں بیچوں گا‘‘ اور راجح قول کے مطابق اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے کہ کوئی اپنی بیوی کو حرام قرار دے لے یا کسی اور چیز کو کیونکہ تحریم کو بمنزلہ قسم قرار دینے والے دلائل کے عموم کا یہی تقاضا ہے۔ اور جہاں تک قسم مغلظ کا تعلق ہے تو اس سے مراد وہ قسم ہے جس کی غلیظ (تاکید اور سختی) کئی وجوہ سے ہو سکتی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب