سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(525) شراب سے علاج

  • 10010
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1746

سوال

(525) شراب سے علاج
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بوقت ضرورت شراب پینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ مثلاً یہ کہ طبیب نے شراب پینے کا حکم دیا ہو۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شراب یا کسی بھی ایسی ناپاک چیز کے ساتھ جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے‘ علاج کرنا حرام ہے اور جمہور علماء کا یہی مذہب ہے چنانچہ دائل بن حجرؓ سے روایت ہے کہ طارق بن سوید جعفیؓ نے نبی اکرمﷺ سے شراب کے بارے میں پوچھا تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں تو اسے دوا کیلئے بناتا ہوں تو آپ نے فرمایا:

«انه ليس بدواء ولكنه داء- ( صحيح مسلم)

’’یہ دوا نہیں بلکہ یہ تو بیماری ہے‘‘۔

حضرت ابوالدردائؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«إِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ الدَّاءَ وَالدَّوَاءَ، وَجَعَلَ لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءً فَتَدَاوَوْا وَلَا تَدَاوَوْا بِحَرَامٍ ۔ ( سنن ابی داؤد)

’’بے شک اللہ تعالیٰ نے دوا کو نازل فرمایا اوربیماری کوبھی نازل کیا ہے اور ہر بیماری کیلئے دوا بھی بنائی ہے تو دوا ضرور استعمال کرو لیکن حرام چیز کو بطور دوائی استعمال نہ کرو‘‘۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے:

«نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الدَّوَاءِ الْخَبِيثِ ۔ ( سنن ابی داؤد)

’’رسول اللہﷺ نے ناپاک اور پلید چیز کے ساتھ علاج سے منع فرمایا ہے‘‘۔

اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے زہر کے ساتھ علاج سے منع فرمایا ہے۔ امام بخاریؒ نے ’’صحیح‘‘ میں حضرت ابن مسعودؓ سے روایت کیا ہے:

«إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَجْعَلْ شِفَاءَكُمْ فِيمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ ۔ ( صحیح بخاری)

’’اللہ تعالیٰ نے اس چیز میں تمہارے لیے شفا نہیں رکھی جس کو اس نے تم پر حرام قرار دیا ہے‘‘۔

اسے امام ابو حاتم بن حبانؒ نے بھی اپنی ’’صحیح‘‘ میں نبی اکرمﷺ سے مرفوع بیان کیا ہے۔ یہ اور ان جیسے دیگر نصوص سے نہایت صراحت کے ساتھ یہ معلوم ہوتا ہے کہ پلید چیزوں کے ساتھ علاج ممنوع ہے۔ نیز ان سے یہ بھی وضاحت کے ساتھ معلوم ہوا کہ شراب سے علاج کرنا حرام ہے کیونکہ یہ توام الخبائث اور تمام گناہوں کا سرچشمہ ہے۔ علمائے کوفہ میں سے جس نے شراب کے ساتھ علاج کو جائز قرار دیا ہے تو اس نے اسے مضطر کے لئے مردار اور خون کے استعمال کے جواز پر قیاس کیا ہے لیکن نص کیخلاف ہونے کی وجہ سے یہ قیاس کمزور ہے لہٰذا یہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ مردار اور خون کھانے سے ضرورت زائل ہو جاتی ہے اور اس سے جان کی حفاظت ہو جاتی ہے لیکن یہ بات یقینی نہیں کہ واقعی شراب سے مرض کا ازالہ ہو جائیگا بلکہ رسول اللہﷺ نے تو ہمیں یہ خبر دی ہے کہ یہ بجائے خود بیماری ہے‘ یہ دوا نہیں ہے لہٰذا یہ علاج کا متعین طریقہ نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ اس مسلمان پر رحم فرمائے جو بیماری کے علاج کے سلسلہ میں حرم اور خبیث (ناپاک) چیزوں سے بے نیاز ہو کر صرف انہی پاک اشیاء کے استعمال پر اکتفاء کرتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے جائز قرار دیا ہے

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص494

محدث فتویٰ

تبصرے