مجھے کھانے کے مسئلہ میں بعض ائمہ کے تقویٰ کے بارے میں معلوم ہے۔ مثلاً: امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے بارے میں کہ وہ اپنے اس بیٹے کے مال کو بھی استعمال نہیں کرتے تھے جو منصب قضاء پر فائز تھا کیونکہ انہیں حکومت سے ملنے والے مال کے بارے میں شک تھا۔ جب سے مجھے اس کا علم ہوا ہے میں نے ہر قسم کے کھانے چھوڑ دیے ہیں سوائے اس کھانے کے جسے میں اپنے گھر میں اپنے باپ کے مال میں سے کھاتا ہوں یا جس کے متعلق مجھے یہ علم ہو کہ یہ کہاں سے حاصل ہوا ہے۔ اس احتیاط کی وجہ سے مجھے بہت سی مشکلات کا بھی سامنا ہے‘ میں نے اس وجہ سے بہت سے بھائیوں کو بھی ناراض کر لیا ہے کیونکہ وہ مجھے کھلانا چاہتے تھے اور میں نے ایک کھجور تک کھانے سے بھی انکار کر دیا تھا‘ اسی طرح ہمارے گھر میں بہت سے مہمان آتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ پھل یا کھانے کی کچھ اور چیزیں لے کر آتے ہیں مگر میں انہیں نہیں کھاتا‘ اس لیے نہیں کہ مجھے یہ وثوق سے علم ہے کہ وہ حرام مال ہے بلکہ اس لیے کہ مجھے اس کے بارے میں شرعی حکم معلوم نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ شرعی حکم ہے کہ مجھے جب بھی کھانے کی دعوت دی جائے تو میں یہ پوچھوں کہ یہ کھانا کہاں سے حاصل ہوا ہے؟ اسی طرح جب بھی کسی دوسرے شہر میں کسی رشتہ دار یا دوست کے پاس جائوں تو کیا یہ ضروری ہے کہ اس کے کھانے کے بارے میں یہ پوچھوں کہ یہ کہاں سے حاصل ہوا ہے؟ اسی طرح اگر کوئی تحفہ کسی کھانے پینے کی چیز کی صورت میں ہو تو کیا اس کے بارے میں بھی اس طرح پوچھنا ضروری ہے یا نہیں؟
کمیٹی نے اس کا حسب ذیل جواب دیا:
اس طرح کا سوال کرنا حضرت محمد بن عبداللہﷺ کی سنت میں نہیں ہے اور نہ ہی یہ آپﷺ کے خلفاء راشدین اور صحابہ کرامؓ کی سنت ہے اور پھر اسطرح کا سوال کرنے سے جفا‘ کینہ اور قطع رحمی پیدا ہوتی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب