السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ شادی کی رات لڑکی کے گھر والے اس کے پائوں ذبح کی ہوئی بکری کے خون سے رکھتے ہیں، اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس رواج کے لئے کوئی شرعی اصل(دلیل) نہیں ہے بلکہ یہ ایک بہت بری عادت ہے اس لئے کہ۔
اولاً۔ یہ ایک فاسد عقیدہ ہے جس کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے۔
ثانیاً۔ناپاک خون کے ساتھ لڑکی کے پائوں کو آلودہ کرنا بے وقوفی ہے کیونکہ نجاست کے بارے میں تو ہمیں حکم یہ ہے کہ اسے زائل کیا جائے اور اس سے دوری اختیار کی جائے۔اس مناسبت سے میں مسلمان بھائیوں کی خدمت میں یہ بھی گزارش کروں گا کہ حکم شریعت یہ ہے کہ جب نجاست لگ جائے تو اسے فوراً زائل کر کے طہارت حاصل کی جائے کیونکہ نبی اکرمﷺ کی سنت سے یہی ثابت ہے چنانچہ جب ایک اعرابی نے مسجد میں پیشاپ کر دیا تھا تو نبیﷺ نے حکم دیا تھا کہ اس کے پیشاپ پر پانی کا ایک ڈول بہا دیا جائے، اس طرح جب ایک ننھے بچے نے نبی اکرمﷺ کی گود میں پیشاپ کر دیا تھا تو آپ نے پانی منگوایا اور اس سے پیشاپ کو دھو دیا۔ نجاست کے ازالہ میں تاخیر کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ انسان بھول جائے اور وہ اسی نجاست میں نماز پڑھ لے۔ اگرچہ راحج قوال کے مطابق بھول جانے کی وجہ سے وہ معذور ہو گا اور اس کی نماز صحیح ہو گی لیکن ہو سکتا ہے کہ اسے نماز کے دوران ہی یاد آ جائے اور اگر نماز کو جاری رکھنے کے ساتھ ازالہ نجاست ممکن نہ ہو تو اسے نماز توڑ کر اور نجاست کو دور کر کے ، نماز از سر نو پڑھنا ہو گی۔
بہرحال یہ ایک بہت ہی بری عادت ہے جس کے بارے میں سوال پوچھا گیا ہے کہ اس میں عورت کو نجاست سے آلودہ کرنا بھی ہے جو کہ بے وقوفی ہے کیونکہ شریعت نے تو نجاست کے ازالہ اور تطہیر کا حکم دیا ہے اور پھر مجھے یہ بھی خدشہ ہے کہ اس عادت کی بنیاد ایک اور عقیدہ پر نہ ہو اور وہ یہ کہ وہ جانور کو جن یا شیاطین وغیرہ کے نام پر ذبح کرتے ہوں گے تو یہ شرک کی ایک قسم ہے اور یہ معلوم ہے کہ شرک کو اللہ تعالیٰ ہرگز معاف نہیں فرماتا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب