السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے کیسٹ پر آپ کا فتویٰ سنا ہے کہ بیرونی ملکوں میں اس طرح شادی بھی جائز ہے کہ جبکہ مدت معین کے بعد طلاق کی نیت ہو، سوال یہ ہے کہ اس میں اور نکاح متعہ میں کیا فرق ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہاں، مستقل کمیٹی کی طرف سے ، جس کا میں سربراہ ہوں، یہ فتویٰ صادر ہوا ہے کہ طلاق کی نیت سے نکاح جائز ہے جبکہ نیت بندے اور اللہ کے درمیان ہو، یعنی جب کوئی بیرون ملک شادی کرے اور اس کی نیت یہ ہو کہ جب وہ اپنی تعلیم کو مکمل کرے گا یا اپنی ملازمت وغیرہ کی مدت مکمل کرے گا تو اسے طلاق دے دے گا۔ جمہور اہل علم کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں جبکہ یہ نیت بندے اور اللہ تعالٰی کے درمیان ہو اور اسے بوقت نکاح شرط قرار نہ دیا گیا ہو۔
اس میں اور متعہ میں فرق یہ ہے کہ نکاح متعہ میں مدت معلوم مثلاً ایک ماہ دو ماہ یا ایک سال یا دو سال وغیرہ کی شرط ہوتی ہے اور جب یہ مدت پوری ہو جاتی ہے تو یہ نکاح فسخ ہو جاتا ہے یہ نکاح متعہ ہے جو کہ باطل ہے لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق نکاح کرے اور اس کے دل میں یہ ہو کہ وہ جب اس ملک سے واپس جائے گا تو اسے طلاق دے دے گا تو یہ صورت نقصان دہ نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں نیت میں تبدیلی آ سکتی ہے اور پھر اس میں مدت بھی معلوم نہیں ہے، شرط بھی نہیں ہے، ہاں البتہ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ نکاح کرنے والا زنا اور فواحش و منکرات سے بچ جائے گا۔ چنانچہ اہل علم کے بقول نکاح کی یہ صورت صحیح ہے جیسا کہ موقف الدین بن قدامہؒ نے اپنی کتاب ’المغنی‘ میں ذکر فرمایا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب