سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(215) بیوی کو شوہر کے ساتھ جانے سے روکنا

  • 9670
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1386

سوال

(215) بیوی کو شوہر کے ساتھ جانے سے روکنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب کوئی نوجوان کسی خاندان سے رشتہ طلب کرنے کے لئے آتا ہے تو لڑکی کا والد بہت زیادہ حق مہر کی شرط عائد کر دیتا ہے، جب شادی پر فریقین کا اتفاق ہو جاتا ہے اور نوجوان شادی کر لیتا ہے تو پھر والد لڑکی کو اس کے شوہر کے ساتھ اس کے گھر جانے سے روک دیتا ہے تاکہ وہ لڑکی اسی کی خدمت کرتی رہے، لڑکی کو بھی اس سے بہت پریشانی ہوتی ہے کہ اب وہ اپنے والدہ ہی کے گھر میں رہے یا اپنے شوہر کے گھر جائے اس سے بہت سی مشکلات بھی پیدا ہوتی ہیں  امید ہے کہ آپ اس طرح کے مسائل میں لوگوں کو صحیح طرز عمل کی رہنمائی فرمائیں گے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے اس بات کو مشرع قرار دیا ہے کہ مہر کم ہوں اور ان میں میانہ روی کو اختیار کیا جائے اسی طرح ولیمہ کی دعوتوں میں بھی اعتدال کو پیش نظر رکھا جائے تاکہ ہر ایک کے لئے آسانی اور سہولت کے ساتھ شادی کرنا ممکن ہو، نیکی کے کام میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا جا سکے اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے عفت و پاکدامنی کی زندگی بسر کرنے کے لئے مقدور بھر کوشش کی جا سکے۔

ہم نے اس موضوع پر کئی بار لکھا ہے تاکہ مسلمانوں کی ہمدردی اور خیر خواہی کا فریضہ ادا کیا جا سکے اور انہیں حق بات کی وصیت کی جا سکے۔ اس موضوع سے متعلق مجلس کبار علماء کی طرف سے بھی کئی قرار دادیں اور سفارشات جاری ہوئی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ مہر کو کم ہونا چاہیے ولیمہ کی دعوتوں میں تکلف نہیں ہونا چاہیے نیز ان میں معاشرہ کو ہر اس چیز کی ترغیب دی گئی ہے جس سے نوجوانوں کو شادی کرنے میں آسانی ہو، میں بھی اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو یہ وصیت کروں گا کہ وہ بھی اس مسئلہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تاکہ نکاح کی کثرت ہو، بدکاری کا سدباب ہو اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو عفت و پاکدامنی کی زندگی بسر کرنے کے لئے مقدور بھر کوشش کی جاسکے۔

ہم نے اس موضوع پر کئی بار لکھا ہے تاکہ مسلمانوں کی ہمدردی اور خیر خواہی کا فریضہ ادا کیا جا سکے اور انہیں حق بات کی وصیت کی جا سکے۔ اس موضوع سے متعلق مجلس کبار علماء کی طرف سے بھی کئی قراردادیں اور سفارشات جاری ہوئی ہیں جن کا خلاصہ یہ  ہے کہ مہر کو کم ہونا چاہیے، ولیمہ کی دعوتوں میں تکلف نہیں ہونا چاہیے نیز ان میں معاشرہ کو ہر اس چیز کی ترغیب دی گئی ہے جس سے نوجوانوں کو شادی کرنے میں آسانی ہو میں بھی اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو یہ وصیت کروں گا ۔ کہ وہ بھی اس مسئلہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تاکہ نکاح کی کثرت ہو، بدکاری کا سدباب ہو اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو عفت و پاکدامنی غض بصر کی زندگی بسر کرنے کا موقع میسر آ سکے اور شادی ہی عفت و پاکدامنی کا سب سے اہم ذریعہ ہے جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے بھی فرمایا ہے۔

((يامعشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فأنه أغض للبصر وأحصن للفرج ، ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له رجاء )) ( صحيح البخاري)

’’اے گروہ نوجوانان! تم میں سے جو شخص نکاح کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو وہ شادی کر لے کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے کا بہترین ذریعہ ہے اور جسے استطاعت نہ ہو تو اسے روزہ رکھنا چاہیے کیونکہ روزہ اس کی جنسی خواہش کو کچل دے گا۔‘‘

صحیح حدیث میں ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((من كان في حاجة أخيه كان الله في حاجته )) صحيح البخاري)

’’جو شخص اپنے (مسلمان ضرورت مند) بھائی کی کسی ضرورت کو پورا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت کو پورا فرمائے گا۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:۔

((والله في عون العبد ما كان العبد في عون أخيه )) ( صحيح مسلم)

’’ جب تک کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے، اس وقت تک اللہ تعالیٰ بندے کی نصرت فرماتا ہے۔‘‘

(اسے امام مسلمؒ نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے)

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کی تعریف فرمائی ہے جو ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کرتے ہیں، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَالعَصرِ‌ ﴿١ إِنَّ الإِنسـٰنَ لَفى خُسرٍ‌ ﴿٢ إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ وَتَواصَوا بِالحَقِّ وَتَواصَوا بِالصَّبرِ‌ ﴿٣﴾... سورةالعصر

’’عصر کی قسم کہ ہر انسان نقصان میں ہے مگر وہ جو لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین کرتے اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔‘‘

بلا شک و شبہ مہر اور ولمیہ کی دعوت میں تخفیف کے لئے تعاون اور تلقین بھی اسی بات میں شامل ہے، اس تخفیف کا فائدہ یہ ہو گا کہ کہ اس سے نکاح بکثرت ہونے لگیں گے ، کنوارے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد میں کمی آ جائے گی، شرم گاہوں کی حفاظت ہو گی، نظریں نیچی رہیں گی، فواحش و منکرات میں کمی آ جائے گی اور امت کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا جیسا کہ نبی ﷺ نے بھی فرمایا ہے:

((تزوجوا الودود فإني مكاثر بكم الأمم يوم القيامة )) ( سنن ابي داؤد)

’’ زیادہ محبت کرنے والی اورزیادہ بچے جنم دینے والی عورت سے شادی کرو کیونکہ روز قیامت تمہاری کثرت کی وجہ سے میں امتوں پر فخر کروں گا۔‘‘

عورت کے والد یا بھائی کا اسے اپنے شوہر کے ساتھ سفر کرنے سے محض اس لئے منع کرنا وہ اس کی خدمت میں لگی رہے یا اس کے اونٹ اور بکریوں کو چراتی رہے تو یہ ایک منکر (برا) اور ناجائز امر ہے کیونکہ عورت کے ولی کو تو یہ چاہیے کہ وہ تعاون کرے تاکہ میاں بیوی کے مل جل کر رہنے سہنے کے حالات پیدا ہو سکیں نیز اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ہر اس چیز سے اجتناب کرے جو کسی شرعی جواز کے بغیر ان کی علیحدگی کا سبب بنے، میں عورتوں کے وارثوں کو یہ بھی وصیت کروں گا کہ وہ اپنی خواتین کی ہم پلہ لوگوں سے شادی میں تاخیر نہ کریں خواہ وہ مالی طور پر فقیر ہی ہوں بلکہ انہیں چاہیے کہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ پر عمل کرتے ہوئے ان کے ساتھ تعاون کریں۔

﴿وَأَنكِحُوا الأَيـٰمىٰ مِنكُم وَالصّـٰلِحينَ مِن عِبادِكُم وَإِمائِكُم ۚ إِن يَكونوا فُقَر‌اءَ يُغنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ ۗ ...﴿٣٢﴾... سورة النور

’’ اور اپنی (قوم کی) بیوہ عورتوں کے نکاح کر دیا کرو اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں(نکاح کر دیا کرو) اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ ان کو اپنے فضل سے خوش حال کر دے گا۔‘‘

اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بیوہ عورتوں اور نیک غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کر دینے کا حکم دیا ہے اور اس نے ہمیں یہ خبر دی اور وہ خبر دینے میں بالکل سچا ہے کہ شادی فقیر و مفلس لوگوں کے لئے خوشحالی کا سبب ہے ، اللہ تعالیٰ نے یہ خبر اس لئے دی تاکہ شوہر اور عورتوں کے ولی مطمئن ہو جائیں کہ فقر و افلاس کی وجہ سے شادی کو ترک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ شادی تو بجائے خود رزق اور دولت کا سبب ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ تمام مسلمانوں کو خیر و بھلائی کی توفیق بخشے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص176

محدث فتویٰ

تبصرے