السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے حرم مدنی میں کسی طالب علم سے یہ سنا ہے کہ شرعاً یہ جائز نہیں ہے کہ کسی شخص سے اجرت پر میت کے لئے قرآن پڑھایا جائے، بعض علاقوں میں چونکہ اس کا رواج ہے تو سوال یہ ہے کہ اس مال کے بارے میں کیا کیا جائے، جس کے متعلق میت نے یہ وصیت کی ہو کہ یہ اس کی طرف سے قرآن خوانی پر خرچ کیا جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی شخص کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اجرت پر قرآن خوانی کرنا بدعت ہے لہٰذا یہ ناجائز اور غلط ہے کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:
((من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد)) ( صحيح مسلم )
’’ جو شخص ایسا عمل کرے جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ عمل مردود ہے۔‘‘
رسول اللہﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے:
((من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد )) ( صحيح البخاري)
’’ جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کرے جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘
میت نے قرآن پڑھنے والے کو بطور اجرت دینے کے لئے جس مال کے بارے میں وصیت کی ہو تو اسے نیکی کے کاموں میں صرف کردیا جائے، اس کی اولاد اگر فقیر ہو تو بقدر ضرورت ان پر خرچ کردیا جائے، اسی طرح قرآن مجید اور دینی علم کے ضرورت مند طلبہ پر خرچ کردیا جائے کہ یہ لوگ اس مال کے زیادہ مستحق ہیں ، اسی طرح اسے دیگر نیک کاموں میں بھی خرچ کیا جا سکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب