جب کوئی شخص دوسرے کے پاس آئے اور اس سے ادھار سامان طلب کرے تو کیا دوسرے کے لیے یہ جائز ہے کہ اسے اس بات کا پابند کرے کہ اسے ایک ہزار کے بجائے ایک ہزار پانچ سو ادا کرنا ہوں گے اور کیا یہ صحیح ہے کہ قیمت ماہانہ قسطوں کی صورت میں ادا کی جائے؟ اور کیا یہ جائز ہے کہ مثلا وہ اس طرح کہے کہ دس ، پندرہ ہیں؟
ان سوالوں کا جواب کئی وجوہ سے ہے۔ (1) معاہدے کا محض سابقہ اتفاق ہی فریقین یا کسی ایک کو اس کا پابند نہیں کرتا بلکہ ان میں سے جو بھی چاہے اس معاہدے سے رجوع کر سکتا ہے۔ تو اس بنیاد پر جب دوسرا شخص بازار سے سامان خریدے، اسے اپنے قبضے میں لے لے، پھر مقروض کو بیچ دے اور پھر مقروض اسے اپنے قبضے میں لے لے تو بیع صحیح ہے، لیکن مشتری کا ارادہ اگر محض پیسوں ہی کا حصول ہو اور وہ ادھار پر سودا ایک سو میں خرید کر نقد بازار میں ستر میں بیچ دے تو یہ سودا جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ یہ سودا درہموں کے ساتھ درہموں کا ہے، جن کے درمیان حریرہ ہے اور بعض اہل علن نے جن میں عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں اسے مکروہ قرار دیا ہے۔ لہذا اجتناب ضرروی ہے۔ اعمہ دعوت میں شیخ عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ میں فتویٰ دیتے ہوئے فرمایا ہے:
"بیع اگر ابتداء ہی سے ادھار ہو تو جائز ہے بشرطیکہ مباح صورت میں ہو۔"
اور اگر اس بیع سے مقصود محض دراہم کا حصول ہو یعنی ادھار کی صورت میں ایک سو روپے خرید کر بازار میں نقد پر ستر میں بیچ دے تو علماء کے ظاہر قول کے مطابق یہ بیع مذموم اور ممنوع ہے، اسے "تورق" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "تورق سود کا بھائی ہے۔"
(2) سائل نے جو یہ کہا ہے کہ جب سامان میرے پاس آ جائے اور میں ایک ہزار کا معاوضہ لینا چاہوں ، تو کیا یہ صحیح ہے کہ میں اسے پابند کروں کہ ایک ہزار کے عوض ایک ہزار پانچ سو ادا کرنا ہوں گے؟ اگر اس سے سائل کا مقصود یہ ہے کہ اسے اس طرح بیچے جس طرح سابقہ مسئلہ میں بیان کیا گیا ہے تو اس کا حکم بھی بیان کیا جا چکا ہے اور اگر اس سے اس کا مقصود یہ ہے کہ بائع اور مشتری اس بات پر متفق ہوتے ہیں کہ جس سودے کی قیمت ایک ہزار ہے، وہ ایک ہزار پانچ سو میں ہو گا، اور مشتری ایک ہزار لے لیتا ہے اور بائع اسے ایک ہزار پانچ سو ادا کرنے کا پابند کرتا ہے، یعنی اس صورت میں سودا صرف فرضی ہوتا ہے اور حقیقت میں کوئی سودا ہوتا ہی نہیں جسے بیچا یا خریدا جا رہا ہو تو یہ بلا شک و شبہ سود ہے اور کتاب و سنت کے ان دلائل کے عموم میں داخل ہے جو سود کی حرمت پر دلالت کناں ہیں۔
(3) اس میں کوئی ممانعت نہیں کہ تمام قیمت ہی ادھار ہو اور اسے خواہ ایک وقت میں ادا کرنا ہو یا مختلف اوقات میں، یعنی قسطوں کی صورت میں کہ مثلا ہر ماہ یا ہر دو ماہ بعد ایک قسط ادا کرنا ضروری ہو اور اس سلسلہ میں اصل "آیت دین" کا عموم ہے کہ اس میں اس بات کی تحدید نہیں ہے کہ مدت ایک ہو یا مختلف ہوں، تو اس صورت میں ہر قسم کی قیمت کے لیے ایک مدت ہو گی۔
(4) انسان کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کہے کہ دس پندرہ ہیں جب کہ اس بات سے اس کا مقصود یہ ہو کہ جس چیز کی نقد قیمت دس ہے اس کی ادھار قیمت پندرہ ہے اور اگر اس کا مقصود یہ ہو کہ دس ریال کو پندرہ ریال کے عوض بیچا جا رہا ہے تو یہ جائز نہیں ہے او اس مسئلہ کے بارے میں پہلے گفتگو ہو چکی ہے۔
(5) ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کے حق میں حکم شریعت یہ ہے کہ وہ جب اس سے کوئی سودا ادھار لینے کے لیے آئے تو وہ اسے اتنی زیادہ قیمت ادا کرنے پر مجبور نہ کرے جو عدل و انصاف کے معروف طریقوں پر مبنی تعامل کے عموم کے خلاف ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عدل کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
"اللہ تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے۔"
اور ہر چیز میں عدل اس کے حساب سے ہوتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ شریعت نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کسی کو ناحق بیع پر مجبور کیا جائے یا تجارتی قافلوں سے (شہر سے باہر) ملاقات کی جائے (کیونکہ انہیں بازار کے نرخ کا علم نہیں ہوتا) یا کوئی شہری کسی دیہاتی کا دلال بنے الا یہ کہ ان شرائط کی پابندی کی جائے جو مشہور و معروف ہوں۔ پس مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ آپس میں رحم دلی کا مظاہرہ کریں کہ جو شخص کسی پر رحمت کرتا ہے تو اس پر بھی رحم کیا جاتا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب