سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(81) دفن کے بعد میت کو تلقین کرنا اور وفات کے وقت (سورت) "یس" پڑھنا

  • 8620
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1630

سوال

(81) دفن کے بعد میت کو تلقین کرنا اور وفات کے وقت (سورت) "یس" پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی نے پوچھا ہے کہ دفن کے بعد میت کو تلقین کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک آدمی قبر کے پاس کھڑے ہو کر کہتا ہے کہ اے اللہ کے بندے! اس عہد کو یاد کر جس پر تو دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف آیا ہے، یعنی دنیا میں تو یہ گواہی دیتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔۔۔ جب تیرے پاس دو فرشتے آئیں اور تجھ سے یہ سوال کریں کہ تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟ تو ان فرشتوں کو یہ جواب دینا کہ اللہ میرا رب ہے، اسلام میرا دین ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے نبی ہیں، کعبہ میرا قبلہ ہے اور مسلمان میرے بھائی ہیں۔۔۔ اس طرح دفن کے بعد اور بھی بہت لمبی گفتگو کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بوقت وفات سورت یٰسین بھی پڑھی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح تلقین میت کے بارے میں کوئی صحیح حدیث ہے، کیونکہ جو لوگ جواز کے قائل ہیں وہ اس کے لیے کئی احادیث پیش کرتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہ ثابت ہے کہ دفن میت سے فراغت کے بعد آپ اور حضرات صحابہ کرام قبر کے پاس کھڑے ہو جاتے، میت کے لیے مغفرت اور ثابت قدمی کی دعا کرتے۔[1] آپ صحابہ کرام کو بھی یہی حکم دیتے کہ وہ بھی مغفرت اور ثابت قدمی کی دعا کریں، آپ قبر کے پاس بیٹھ کر نہ تو کچھ پڑھتے اور نہ میت کو تلقین کرتے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس پر تمام امت کا اجماع ہے کہ موت کے بعد تلقین میت واجب نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے عہد میں بھی مسلمانوں میں یہ عمل مشہور نہ تھا، البتہ بعض صحابہ مثلا حضرت ابو امامہ اور واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہما سے یہ منقو ل ہے، لہذا بعض ائمہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اختیار کیا ہے۔ امام احمد اور امام شافعی کے بعض اصحاب نے اسے مستحب قرار دیا ہے جب کہ بعض علماء نے اسے مکروہ قرار دیا ہے، کیونکہ وہ اسے بدعت قرار دیتے ہیں گویا اس مسئلہ میں تین اقوال ہیں:

(1)یہ مستحب ہے (2) مکروہ ہے (3) جائز ہے۔ سب سے صحیح قول یہ ہے کہ مستحب یہ ہے جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم بھی دیا اور ترغیب بھی دی کہ میت کے لیے دعا کی جائے۔


[1] سنن ابي داؤد، الجنائز، باب الاستغفار عند القبر، حدیث: 3221

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الجنائر: ج 2  صفحہ 82

محدث فتویٰ

تبصرے