میں نے ایک حدیث سنی ہے جس میں یہ ہے کہ ایک آدمی نے اپنے سر کے کچھ با لو ں کو منڈوا دیا اور کچھ کو چھوڑ دیا تو تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو اس سے منع کر دیا اور فر ما یا کہ سارے سر کو مونڈ دو یا سارے کو چھوڑ دو ۔تو سوال یہ ہے کہ با لوں کا کا ٹنا حرا م ہے ؟نیز (مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ) کیا یہ مفہوم ہے ؟
سر کے با لوں کا ٹنا یا مو نڈنا حرا م نہیں ہے بلکہ یہ دونوں صورتیں جا ئز ہیں اور افضل یہ ہے کہآدمی عادت کے مطا بق عمل کر ے بشر طیکہ ہم یہ با ت صحیح تسلیم کر یں کہ با لو ں کا مسئلہ عادت کے تا بع ہے سنت تا بع نہیں ۔ سوال میں جس حدیث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تو وہ حدیث یہ ہے کہ نبی کر یم ﷺ نے جب ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے سر کے کچھ حصے کو مونڈ رکھا تھا اور کچھ کو چھوڑ رکھا تھا تو آپ ﷺ نے اسے حکم دیاکہ وہ سا ر ے سر کو مو نڈلے یا سا رے کو چھوڑ دے لہذا اگر سر کے با لوں کو مونڈ دیا جا ئے یا کترا دیا جا ئے یا تخلیق کیا جا ئے وتقصیر کے بغیروں ہی چھوڑ دیا جا ئے تو اس میں کو ئی حر ج نہیں ۔مذکوہ بالا آیت کر یمہ کا جو حوا لہ دیا گیا ہے تو اس میں اس وعدہ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعا لی نے اپنے رسول اللہ ﷺ اورآپ کے صحا بہ کرا م رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فر ما یا تھا کہ :
"اللہ نے چا ہا تو تم ہر صورت مسجد حرا م میں اپنے سر منڈوا کر اور اپنے بال کتروا کر امن امان سے داخل ہو گے ،اس لئے کہ عمرہ کر نے والے کے لئے یہ جا ئز ہے کہ وہ اپنے سر کو منڈوا کر اور اپنے با ل کتروا ئے ہاں البتہ دلیل سے یہ ثا بت ہے کہ کتروانے کی نسبت با لو ں کو منڈوانا افضل ہے ۔
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب