سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(236) با لوں کو چھو ٹا اور لمبا کر نا

  • 8530
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1235

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے ایک حدیث سنی ہے جس میں یہ ہے کہ ایک آدمی  نے   اپنے سر کے کچھ با لو ں کو منڈوا  دیا  اور کچھ کو چھوڑ دیا تو تو رسول اللہ ﷺ  نے اس کو اس سے منع کر دیا اور فر ما یا کہ سارے سر کو مونڈ دو   یا سارے کو چھوڑ دو ۔تو سوال یہ ہے کہ با لوں کا کا ٹنا حرا م ہے ؟نیز (مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ) کیا یہ مفہوم ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سر کے با لوں کا ٹنا یا  مو نڈنا حرا م نہیں ہے  بلکہ یہ دونوں صورتیں جا ئز ہیں   اور افضل یہ ہے  کہآدمی  عادت  کے  مطا بق  عمل کر ے بشر طیکہ  ہم یہ با ت  صحیح  تسلیم  کر یں  کہ با لو ں  کا مسئلہ  عادت  کے تا بع  ہے  سنت  تا بع نہیں ۔ سوال میں  جس حدیث کی طرف  اشارہ کیا گیا ہے  تو وہ حدیث یہ ہے کہ نبی کر یم ﷺ نے جب ایک شخص کو دیکھا  کہ اس نے سر کے  کچھ حصے کو  مونڈ  رکھا تھا اور کچھ کو چھوڑ رکھا تھا  تو آپ ﷺ نے اسے حکم دیاکہ وہ سا ر ے   سر  کو مو نڈلے یا سا رے کو چھوڑ دے لہذا  اگر  سر  کے با لوں  کو مونڈ دیا  جا ئے یا کترا  دیا جا ئے  یا تخلیق کیا جا ئے وتقصیر کے  بغیروں ہی  چھوڑ دیا جا ئے  تو اس میں  کو ئی حر ج نہیں ۔مذکوہ بالا آیت کر یمہ  کا جو  حوا لہ  دیا گیا  ہے تو  اس میں  اس وعدہ  کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعا لی  نے اپنے رسول اللہ ﷺ اورآپ کے صحا بہ کرا م رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے فر ما یا تھا کہ :

﴿لَتَدخُلُنَّ المَسجِدَ الحَر‌امَ إِن شاءَ اللَّهُ ءامِنينَ مُحَلِّقينَ رُ‌ءوسَكُم وَمُقَصِّر‌ينَ...٢٧﴾... سورة الفتح

"اللہ نے چا ہا تو تم ہر صورت مسجد  حرا م میں   اپنے سر منڈوا  کر  اور اپنے  بال کتروا کر امن امان سے داخل ہو گے ،اس لئے کہ  عمرہ  کر نے والے  کے لئے یہ جا ئز ہے  کہ وہ اپنے  سر  کو  منڈوا  کر  اور  اپنے  با ل  کتروا ئے  ہاں  البتہ  دلیل  سے یہ ثا بت  ہے کہ کتروانے  کی نسبت  با لو ں  کو  منڈوانا  افضل ہے ۔

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1 ص38

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ