اللہ تعالیٰ ٰ اپنے ان مومن بندوں پر جو کثرت سے اس کی عبادت بجا لاتے ہیں۔بیماریوں اور آزمائشوں کا کیوں بوجھ ڈالتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ ٰ کے نافرمان اس زندگی کی آسائشوں سے بھر پور استفادہ کرتے ہیں؟
اس سوال کے دو پہلو ہیں:
1۔اعتراض کا پہلو اور 2۔استرشاد(راہنمائی طلب کرنے) کا پہلو
اگر یہ سوال بطوراعتراض ہے تو یہ سائل کی جہالت کی دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ٰ کی حکمتوں کو ہماری عقلیں نہیں پاسکتیں۔جیسا کہ روح کے ضمن میں اللہ تعالیٰ ٰ نے فرمایا ہے:
''اور آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔کہہ دیجئے کہ وہ میرے پروردیگار کا ایک امر ہے اورتم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے۔''
یہ روح جو ہمارے اپنے جسم میں ہے۔جو ہمارا مادہ حیات ہے۔ہم اس کو نہیں جانتے تمام دانشور فلسفی اور متکلم وحکیم اس کی تحدید وکیفیت سےعاجز ودرماندہ ہیں۔یہ روح جو مخلوقات میں ہمارے سب سے زیادہ قریب ہے۔اس کے بارے میں جب ہم صرف یہی جانتے ہیں۔جو کتاب وسنت میں مذکور ہوا ہے۔تودیگر مخلوقات کے بارے میں جو ہمارا علم ہے۔وہ کس قدر ہوگا اس کا اندازہ آپ خود لگالیجئے؟اللہ تعالیٰ ٰ سب سے بڑا حاکم سب سے عظیم سب سے جلیل اور سب سے بڑی قدرت والا ہے۔ہم پر فرض ہے۔کہ اس کے فیصلوں کے سامنے سرتسلیم خم کردیں۔اس کی کونی وقدری قضاء کو سربسر تسلیم کرلیں کیونکہ ہم اس کی حکمتوں اور مصلحتوں کے ادراک سے عاجز وقاصر ہیں لہذا اس پہلو سے اس سوال کے جواب میں ہم صرف یہ کہیں گے۔کہ اس میں جو حکمتیں اور مصلحتیں ہیں ان کو صرف اللہ تعالیٰ ٰ ہی جانتا ہے۔جو بہت علم والا بہت حکمت والا بہت قدرت والا اور بے حد وحساب عظمت والا ہے۔
اس سوال کے دوسرے پہلو۔۔۔راہنمائی۔۔۔کےاعتبار سے اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ مومن کی آزمائش ہوتی ہے۔اور اللہ تعالیٰ ٰ کی جس آزمائش سے مسلمان کو تکلیف ہو۔ اس کے دو بڑے فائدے ہیں۔1۔ایک تو اس آدمی کے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے کہ اس کا ایمان سچا ہے یامتزلزل ہے؟ صادق الایمان مومن اللہ تعالیٰ ٰ کی قضاء وقدر پر صبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ ٰ سے اجروثواب کاطالب ہوتا ہے اور اس سے اس کے لئے آزمائش آسان ہوجاتی ہے۔ ایک عابدہ خاتون کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ اس کی انگلی کٹ گئی یاذخمی ہوگئی لیکن اس نے کسی تکلیف یاجزع فزع کا اظہار نہ کیا جب اس سے اس بارے میں پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا کہ''اس تکلیف پراجر کی حلاوت نے اس پرصبر کی تلخی کو بھلادیا۔''
مومن چونکہ اللہ تعالیٰ ٰ سے اجرو ثواب کی اُمید رکھتا ہے۔لہذا وہ اس کے فیصلوں کے سامنے سراطاعت خم کردیتا ہے۔
اس کاددسرا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ٰ نے اپنے صابر بندوں کی بہت زیادہ تعریف کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہے۔وہ انہیں بغیر حساب کےاجروثواب سے نوازے گا۔صبر وہ بلند بالا مرتبہ ہے جسے صرف صبر کرنے والا ہی حاصل کرسکتاہے۔لہذا للہ تعالیٰ ٰ اپنے مومن بندوں کی اسی لئے بھی آزمائش کرتا ہے۔ تاکہ وہ صابرین کےدرجے کے پالیں۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جو ایمان تقویٰ اور خشیت کے سب سے عظیم مرتبہ پرفائز تھے دو آدمیوں جتنا بخار ہوتا اور بوقت نزع بھی آپﷺ کو بہت تکلیف ہوئی اور یہ سب اس لئے تھا ککہ آپ کامرتبہ صبر مکمل ہوجائے کیونکہ آپ تمام صابرین کے سردار اور ان سے بڑھ کر صبر کا مظاہرہ فرمانے والے تھے۔اس سے آپ کے سامنے وہ حکمت واضح ہو جاتی ہے۔جس کے پیش نظر اللہ تعالیٰ ٰ اپنے مومن بندوں کی آزمائش فرماتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ٰ نافرمانوں فاسقوں فاجروں اور کافروں کو جو بے پناہ صحت وعافیت اور رزق سے نوازتا ہے۔تویہ اس کی طرف سے استدراج ہے نبی کریمﷺ کی صحیح حدیث ہے۔:
’’دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے۔''
کافروں کو یہ نعمتیں اس لئے ملتی ہیں۔تاکہ ان کے حصے کی تمام نعمتیں انہیں جلدی سے دنیا ہی میں دے دی جایئں اور روز آخرت ان کے حصے میں عذاب الٰہی کے سوا اور کچھ نہ ہو ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:
''اور جس دن کافر آگ کے سامنے کیے جایئں گے۔(تو کہا جائے گا کہ) تم اپنی دنیا کی زندگی میں لذتیں حاصل کرچکے اور ان سے متمتع ہوچکے ہو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے (یہ اس کی سزا ہے) کہ تم زمین میں ناحق غرور کیا کرتے تھے۔اور اس کی کہ بدکرداری کرتے تھے۔''
حاصل کلام یہ کہ یہ دنیا کافروں کے لئے ہے۔لیکن ان کے ساتھ استدراج کیا جاتا ہے۔اور جب وہ اس دنیائے آسائش سے آخرت کی طرف منتقل ہوں گے۔تو وہاں عذاب الٰہی ان کے انتطار میں ہوگا۔العیاذ باللہ۔اور یقیناً وہ عذاب انہیں بہت سخت محسوس ہوگا۔کیونکہ ایک طرف تو اس میں عبرت اور سزا کا پہلو ہوگا تو دوسری طرف دنیا کی نعمتوں اور آسائشوں سے محرومی کا احساس!
مومن کی دنیا میں آزمائش کا مذکورہ بالا دو فائدوں کے ساتھ ایک تیسرا فائدہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مومن س دنیا سے بہتر گھر کی طرف منتقل ہوتا ہے۔یعنی وہ دکھوں اور مصیبتوں کے گھر سے خوشیوں اور مسرتوں کے گہوارے کی طرف جاتا ہے۔تو اس کی خوشی دچند ہوجاتی ہے۔اس کے آلام ومصائب کادور ختم ہوجاتا اور ابدی وسرمدی نعمتوں اور کامرانیوں کے دور کا آغاز ہوجاتا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب